بزرگان دین کے ایمان افروز واقعات

ہندوستان میں کسی صاحب کے ہاں شادی کی تقریب ہوئی، اس میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ کو بھی دعوت دی گئی۔ حضرت شیخ الہند بھی تشریف لے گئے، دارالعلوم کے مہتمم مولانا حافظ احمد صاحب وغیرہ بھی وہاں موجود تھے۔ شیخ الہندؒ مہمانوں کی صف میں ملے جلے بیٹھے تھے، اتفاق کی بات کہ اس تقریب میں کچھ منکرات (گناہ کے کام) سامنے آئے، دارالعلوم کے بعض اساتذہ نے آکر شیخ الہند سے عرض کیا:
’’آپ صاحب خانہ کو سمجھائیں کہ وہ ان منکرات سے پرہیز کریں۔‘‘
شیخ الہندؒ نے بے ساختہ تعجب سے مولانا حافظ احمدؒ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’اکابر کے ہوتے ہوئے آپ لوگ میرے پاس آئے ہیں،ان کی موجودگی میں میرا کچھ کہنا بے ادبی ہے۔‘‘
یہاں یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ حافظ احمد صاحبؒ شیخ الہندؒ کے تقریباً ہم عمر تھے، لیکن شیخ الہندؒ کو رب تعالیٰ نے سچی تواضع عطا فرمائی تھی، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے مقام سے واقف ہی نہیں تھے اور اپنے ہم عمروں کو بھی اپنے سے بڑا سمجھتے تھے۔
مولانا سید انور شاہ کشمیریؒ ایک مرتبہ سخت بیمار تھے، بیماری طول پکڑتی جا رہی تھی، ایک صبح یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرت کا انتقال ہو گیا ہے، یہ خبر طلبا پر بجلی بن گر گئی، نماز فجر کے فوراً بعد سب حضرت کے مکان کی طرف لپکے۔ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ بھی ساتھ کھڑے تھے، گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی… البتہ تکلیف کی شدت برقرار تھی، یہ سب حضرات عیادت کے لیے کمرے میں پہنچے، انہوں نے دیکھا، حضرت نماز کی چوکی پر بیٹھے ہیں، سامنے تکیے پر ایک کتاب رکھی ہے اور اندھیرے کی وجہ سے حضرت جھک کر مطالعہ کر رہے ہیں، خدام کو یہ منظر دیکھ کر حیرت ہوئی اور پریشانی بھی ہوئی کہ ایسی بیماری کی حالت میں بھی مطالعے کے لیے اتنی محنت کر رہے ہیں… اس طرح تو مرض میں اور اضافہ ہوگا، چنانچہ مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے ہمت کر کے عرض کیا:
’’حضرت یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کہ آخر وہ کون سی بحث رہ گئی ہے، جو حضرت کے مطالعے میں نہ آچکی ہو اور اگر فرض کریں، کوئی ایسی بات رہ بھی گئی ہے تو طبیعت سنبھلنے پر اس کا مطالہ کیا جا سکتا ہے یا پھر اگر کوئی ضروری مسئلہ ہے تو ہم خدام کہاں مر گئے، آپ کسی شخص کو حکم فرماتے، وہ مسئلہ دیکھ کر عرض کردیتا، لیکن اس اندھیرے میں ایسے وقت میں آپ جو محنت کررہے ہیں، وہ ہمارے لیے ناقابل برداشت ہے۔‘‘
مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کے خاموش ہونے پر شاہ صاحبؒ کچھ دیر تک تو نہایت معصومانہ اور بے چارگی کے انداز میں ان کی طرف دیکھتے رہے، پھر فرمایا:
’’بھائی! ٹھیک کہتے ہیں، لیکن یہ کتاب بھی تو ایک روگ ہے، اس روگ کا کیا کروں۔‘‘
یعنی مطالعہ بھی ایک قسم کا لاعلاج مرض ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے ایک استاد کو ایک کالج کی طرف سے اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، یہ استاد شیخ الہندؒ کے شاگرد بھی تھے، انہوں نے شیخ الہند سے ذکر کیا اور عرض کیا:
’’حضرت ہم یہاں دارالعلوم میں آٹھ آٹھ دس دس گھنٹے پڑھاتے ہیں، باقی وقت مطالعے میں گزرتا ہے… تصنیف و تالیف یا وعظ وغیرہ کے لیے وقت بہت کم ملتا ہے، خیال یہ ہے کہ کالج میں پڑھانے کا وقت بہت کم ہوگا اور فارغ وقت میں تصنیف اور تالیف اور دوسری دینی خدمات کے لیے وقت زیادہ ملے گا، اس لیے میرا رجحان یہ ہے کہ اس پیشکش کو قبول کرلوں، آپ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔‘‘
’’مولوی صاحب! مجھے امید نہیں ہے کہ آپ وہاں جا کر اتنی دینی خدمت بھی فارغ اوقات میں انجام دے سکیں، جتنی یہاں ہوتی ہے۔‘‘
ان استاد صاحب نے شیخ الہندؒ کی رائے سے اتفاق نہ کیا اور دارالعلوم کی ملازمت چھوڑ کر کالج کی ملازمت اختیار کر لی، تقریباً ایک سال بعد وہ چھٹیوں میں دیوبند آئے اور حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے، شیخ الہند نے ان سے پوچھا:
’’کیوں مولوی صاحب! اس عرصے میں آپ نے کتنی کتابیں لکھیں، کتنے فتوے لکھے اور کتنے وعظ کیے۔‘‘
حضرت کا سوال سن کر وہ رو پڑے، کہنے لگے:
’’حضرت حساب اور کتاب کی رو سے آپ کی بات سمجھ میں نہیں آئی تھی، لیکن تجربے سے سمجھ میں آگئی، واقعہ یہ ہے کہ جتنا کام دارالعلوم میں مصروفیات کے باوجود ہو جاتا تھا، وہاں فرصت کے باوجود اتنا بھی نہیں ہوا۔‘‘(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment