برطانوی ہندوستان میں افواج انگریز کی تاریخ کا ایک دلچسپ اگرچہ گمنام گوشہ یہ ہے کہ انسداد ٹھگی کے سات دہائی بعد پہلی جنگ کے کچھ پہلے جب جنرل سلیمن کے پوتے کرنل جیمس سلیمن نے چاہا کہ ہندوستانی فوج کے لئے زمیں کنی کا کوئی عمدہ آلہ تیار کرائے، تو کئی نقشے اور مشقیں اور تجربات عمل میں لانے کے بعد کرنل جیمس سلیمن نے جو کدال ایجاد کی، وہ ٹھگوں کی کَسّی سے کم و بیش ہو بہو تھی۔ اگرچہ کرنل جیمس سلیمن نے کوئی کَسّی کبھی دیکھی نہ تھی۔
جب کوئی ٹھگوں کا جمعدار کسّی تیار کرنا چاہتا تو سب سے پہلے اچھا شگون دیکھ کر لوہار سے کسّی بنواتا ہے اور اس بات کا لحاظ رکھتا ہے کسّی بنانے کے دوران لوہار کوئی اور کام نہ کرے اور کوئی غیر آدمی اس کے گھر آنے نہ پاوے۔ جب کسّی تیار ہو جاتی تو کوئی اچھا سا دن دیکھ کر اسے دھوپ دیتے ہیں کہ اس میں انس و برکت پیدا ہووے۔ پھر اگر حضر میں ہیں تو دروازے مکان کے بند کر کے اور اگر سفر میں ہیں تو کسی بہت ہی محفوظ جگہ میں بیٹھ کر سوائے سنیچر اور اتوار کے ٹھگان کی ایک مجلس جماتے ہیں۔ کسی صاف ستھری جگہ کو لیپ پوت کر چوکا دیتے ہیں۔ یعنی خطوط مستقیم سے بڑا سا مربع بنا دیتے ہیں اور ایک ٹھگ جو دستورات ہوم سے خوب واقف ہوتا ہے، اس چوکے کے اندر بیٹھ جاتا ہے اور دیگر ٹھگوں کو بھی اپنے پاس بٹھاتا ہے۔ پھر ایک تھالی میں کدال کو پاک پانی سے دھو دھا کر اس پانی کو ایک گڑھے میں کہ چوکے کے قریب پہلے ہی کھود لیا گیا ہو، ڈال دیتے ہیں۔ بعد اس کے، گڑ کے شربت سے، پھر دہی سے، پھر شراب سے اس کسّی کو دھو کر سارا رقیق اسی گڑھے میں ڈالتے جاوے ہیں۔ پھر اس کدال پر ہنوز گیلی ہو، سات ٹیکے سیندور کے کدال کی نوک تلک لگاکر ہوم کنندہ کدال کی نوک کو تھالی کے کنارے پر اپنے روبرو رکھتا ہے۔ اور ایک دوسری تھالی میں ایک ناریل اور پانچ یا سات پان اور چند پھول لونگ گوگل، اندر جو، تل سفید، اور گڑ رکھتے ہیں۔ پھر ایک کٹوری میں گھی رکھتے ہیں۔ پھر چوکے کے بھیتر کنڈوں کی آگ جلاتے ہیں۔ جب آگ خوب روشن ہو لے تو ناریل چھوڑ، تھالی کی ہر شے وہ ٹھگ جو واقف دستورات قدیم ہوتا ہے، آگ میں یوں پھینکتا ہے کہ شعلہ اٹھے۔ اسی شعلے پر کدال کو سات دفعہ پھیر کر ہوم کنندہ پوست ناریل کا دور کر کے جملہ حاضرین ٹھگ سے اجازت مانگ کر کدال کا سر، کہ جس طرف بینٹ لگانے کے لئے چھید ہوتا ہے، جے دیوی مائی کہتا ہوا ناریل پر اس زور سے مارتا ہے کہ ایک ہی ضرب میں ناریل پاش پاش ہوجاوے۔ اور سب ٹھگ کیا ہندو کیا مسلمان، چلا کر بولتے ہیں، جے دیوی مائی کی۔ پھر ذرا سی ناریل کی گری اور تمام اس پوست و استخواں اسی آگ میں ڈال دیتے ہیں اور پھر سارے ٹھگ رو بہ مغرب سجدہ کر کے باقی ماندہ گری کو کھا جاتے ہیں۔
سوائے جمعدار کے کوئی شخص کسّی نہیں بنوا سکتا۔ نجاست میں کسّی کو ہاتھ لگانا یا عام حالت میں بھی اس کو لانگھنا نہایت درجہ بے ادبی ہے۔ ٹھگ لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جس طرف جانے کا ارادہ ہوے، کسّی کی نوک ادھر رکھ کر اسے زمین میں گاڑ دینا چاہئے۔ اگر اس طرف جانے میں بہتری نہ ہووے تو کسّی ادھر سے منہ پھیر کر دوسری طرف جس طرف جانے میں بھلائی ہووے، کر لیتی ہے۔
جب شکار کو مارنے کا موقع نزدیک آتا ہے اور اپنے گروہ کو متنبہ کرنا ہوتا ہے کہ تیار ہو جائیں، تو ان میں سے ایک شخص یا جمعدار، کسی بہانے سے سربلند خان، دلڑ خان، یا سرمست خان، نام لیتے ہیں۔ اس نام کو سن کر ٹھگ مستعد ہو کر جھرنی کا انتظار کرتا ہے۔ جِھرنی بظاہر بے ضرر لفظ یا الفاظ ہیں، جو جمعدار اشارتاً سنانے کیلئے بولتا ہے کہ اب ارتکاب قتل کر ڈالو۔ عموماً یہ الفاظ تمام کھوکھالو، سرتی کھالو، تبک لائو، حقہ پی لو، پان دو، کبت پڑھ لو، آئے ہو تو (جو پہلے سے آپس میں مقرر کر لیتے ہیں) سن کر ہر بھٹوت اپنا کام کر ڈالتا ہے۔
مقررہ شگونوں اور مستثنیات کے علاوہ ٹھگوں کے تمام گروہ ساتے کا بھی پورا لحاظ کرتے ہیں۔ یعنی کام پر نکلنے کے دن سے سات دنوں کو ساتا کہتے ہیں اور ان ایام میں تمام ٹھگ، حتیٰ کہ ان کے گھر والے بھی بعض کاموں سے مکمل پرہیز کرتے ہیں۔ مثلاً خیرات دینا۔ یہاں تلک کہ اس کی بھی احتیاط کرتے ہیں کہ کتا بلی روٹی نہ لے جاوے۔ ان دنوں میں وہ سوائے مچھلی کے کوئی گوشت نہیں کھاتے، سر نہیں منڈاتے، کپڑے دھوبی کو نہیں دیتے۔ ان سات دنوں میں ان کے گھر والے، دیگر ٹھگوں کے متعلقین کو، اگر ان کے ٹھگ الگ سے جتائی پر گئے ہوں، تو انہیں اپنے گھر آنے، بلکہ اپنا دروازہ بھی لانگھنے سے منع کرتے ہیں۔
اقوام و افراد مستثنیات میں حسب ذیل قابل ذکر ہیں۔ اتیت، اندھا، پوجا، بھاٹ، تیلی، جٹا، جوگی، چمار، دھوبی، سنار، عورت، فقیر، قلتبان، کایتھ، کسبی، کلانوت، کنگال، کوڑھی، لنگڑا، لولا، ناک بیٹھی اور نکٹا۔
ایٹب کے ممنوعات میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
ایام مفصلۂ ذیل کو ایٹب کہتے ہیں۔ جب کسی ٹھگ کی جورو بچہ جنے یا کسی ٹھگ کی بیٹی بیاہی جاوے، یا اس کے بیٹے کی مسلمانی ہوے تو اس دن سے لے کر بارہ دن تک سفر کو نہ نکلیں اور اگر سفر میں ہوں تو واپس چلے آویں۔ کسی ٹھگ کے یہاں کوئی غمی ہوجاوے تو یہی پابندی دس دن کی ہے۔ اگر کسی ٹھگ کی سواری کا گھوڑا یا گھوڑی مر جاوے تو بھی یہی پابندی دس دن کی ہے۔ کسی ٹھگ کی گائے یا کوئی اور چوپایہ مر جاوے تو یہی پابندی سات دن کی ہے۔ کسی ٹھگ کی بکری، کتیا، بلی، بچہ جنے تو یہی پابندی تین دن کی ہے۔ اور یہ نہیں ہے کہ جس ٹھگ کے یہاں ایسا ہووے اسی کو ایٹب لگے۔ اگر کوئی ٹھگ بارہ کوس کی راہ سے بھی سن لیوے کہ فلانے ٹھگ کے یہاں ایسا ہوا ہے، تو اس کو بھی ایٹب لگ جاوے گا۔ ٹھگ لوگ ایٹب زدہ ٹھگوں کو اگر چھو بھی لیں، یا ان کا کپڑا ہی ان کو چھو جاوے تو انہیں بھی ایٹب لگ جاتا ہے۔ اور ہندوستانی ٹھگ ایٹب کو ایٹک کہتے ہیں۔
کہا گیا ہے کہ قوم ٹھگان، جن کے گروہ مختلف اقالیم ہند میں مختلف نام رکھتے تھے، ٹھگی کے علاوہ عام دنوں میں اکثر نہایت سادہ اور اپنے مذہب کے عبادات و مناسک کے پورے پابند اور بہت رحم دل اور مخیر ہوتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سلیمن صاحب نے صرف اوپر اوپر صفائی کی، ورنہ ٹھگ جرگے یا افراد تو اب بھی خفیہ طور پرموجود ہیں اور اپنا کام کرتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ آج کل کے ٹھگوں کا ملک دکن میں دور دورہ زیادہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دکن میں اورنگ آباد سے لے کر دولت آباد تک اک علاقہ ان کا خاص ملاذ و ملجا رہا ہے۔ ایک ٹھگ نے تو سلیمن صاحب کے سامنے بیان دیا کہ اور لوگ سمجھیں یا نہ سمجھیں، لیکن ایلورا کے غاروں میں جو چھوٹی مورتیاں اور سنگی شبیہیں ہیں، ان میں ٹھگی کے پورے عمل مثلاً رومال سے گلا گھونٹنا، دو ٹھگوں کا اپنے شکار کے ہاتھ پائوں جکڑنا، کدال سے گور کھودنا، پھر لاش کو توپنا، ان سب کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ ایک روایت تو یہ بھی ہے کہ ٹھگان، نابکار اب امریکہ و لندن میں بھی سرگرم کاز ہیں اور سارے ٹھگ اب بھی اپنی مخصوص بولی استعمال کرتے ہیں، جسے وہ رماسی کہتے ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ سلیمن صاحب نے ٹھگوں کی تعدی اور تعدد دونوں ہی کو بہت بڑھا کر بیان کیا، ورنہ دراصل ٹھگی اس قدر عام نہ تھی۔ درحقیقت چند ہی بدنصیب گناہ گار چوٹٹے اچکے اور شکار کو مخنق کر کے مارنے والے جرائم پیشہ اقوام کے فرد تھے، جنہیں بعض علاقوں میں ٹھگ کہتے تھے۔ یہ صرف جان کمپنی اور انگریزی راج کی برکتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کا ایک حیلہ تھا کہ امن و امان قائم کرنے کے بہانے ہزاروں کو ٹھگی کے نام پر پکڑا دیا۔ سینکڑوں کو پھانسیاں دی گئیں۔ سینکڑوں کو عبور دریائے شور کا حکم دیا گیا۔ کچھ کو وعدہ معاف گواہ بنا لیا گیا اور بیسیوں شاہجہان پور، اندور، ساگر، جبل پور اور لکھنئو وغیرہ کے جہل خانوں میں دائم الحبس سڑا دیئے گئے۔ بڑی تعداد میں ٹھگوں کو ماخوذ کئے جانے کے وقت سے پہلے کے زمانے میں یعنی جنرل سلیمن کی کار گزاریاں شروع ہونے کے پہلے کسی مجرم کو سزائے موت اسی وقت دی جا سکتی تھی، جب سزائے موت کی موافقت میں قاضی شہر بھی فتوائے قتل صادر کرے۔ ٹھگوں کی کثیر ترین تعداد کو آسانی سے سزائے موت دی جا سکے۔ اس غرض سے جان کمپنی نے نیا قانون وضع کیا، جس کی رو سے قاضی کے فتوے کی ضرورت نہ تھی۔ صرف انگریز عدالت کا فیصلہ کافی تھا۔ یہ سارا کھٹ راگ کمپنی کی شہرت اور نیک نامی کے لئے برپا کیا گیا۔ واللہ اعلم۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭