مولانا فضل الرحمن سے اتحاد نے جماعت اسلامی خیبرپختون کا شیرازہ بکھیردیا

امت رپورٹ
ایم ایم اے کے قیام نے خیبر پختون میں جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھیر دیا۔ ’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے ساتھ اتحاد کے باعث جماعت اسلامی کے 50 سے زائد ارکان نے استعفیٰ دیا۔ وجہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم پر جے یو آئی (ف) کی جانب سے کمپرومائز نہ کرنا بنی۔ جماعت اسلامی کے مستعفی ارکان خیبر پختون میں اس انتشار کا سبب امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور صوبائی امیر مشتاق احمد خان کو قرار دیتے ہیں۔ حالیہ الیکشن میں پارٹی چھوڑنے والے اراکین جماعت کی رائے میں سراج الحق کی ناقص حکمت عملی نے پارٹی کو اس نہج پر پہنچایا کہ دہائیوں سے جڑے افراد پارٹی چھوڑ کر دیگر سیاسی جماعتوں میں چلے گئے۔ مستعفی ارکان کے خیال میں متحدہ مجلس عمل کے قیام کا مقصد جیتی ہوئی نشستوں پر جے یو آئی (ف) کا قبضہ تھا، جو انہیں کسی صورت قبول نہیں تھا۔ معلوم ہوا ہے کہ جے یو آئی (ف) کو سیٹوں کی تقسیم میں زیادہ حصہ دینا بھی جماعت اسلامی کے حق میں اچھا ثابت نہیں ہوا اور صوبے کے بڑے اضلاع کی اعلیٰ قیادت اپنی ذمہ داریوں سے مستعفی ہوگئی۔ بعدازاں مالاکنڈ ڈویژن، پشاور، نوشہرہ اور خیبر پختون کے جنوبی اضلاع میں ایم ایم اے کے پارٹی ٹکٹس کی تقسیم پر جماعت اسلامی مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی۔ ذرائع نے بتایا کہ پی کے 63 میں ٹکٹ کے معاملے پر نوشہرہ کے ضلعی امیر انور اسلام نے 50 سے زائد دیہات کے ذمہ داران سمیت استعفیٰ دے دیا۔ اسی طرح سابق سیکریٹری اطلاعات اسراراللہ ایڈووکیٹ بھی پارٹی کو خیرباد کہہ کر نواز لیگ میں چلے گئے۔ ان کا خاندان جماعت اسلامی کے قیام سے پارٹی کا حصہ تھا۔ تاہم قیادت کے غلط فیصلوں کے سبب ان کے بڑے بھائی فضل اللہ جو جماعت اسلامی پشاور کے نائب امیر رہ چکے تھے، رکنیت سے مستعفی ہوگئے اور پھر ایم ایم اے کے امیدوار آصف اقبال دائود زئی کے نواز لیگ سے مدمقابل کے طور پر سامنے آئے۔ ذرائع نے بتایا کہ جے یو آئی (ف) کے ساتھ اتحاد کے باعث سراج الحق کے مشیر انتخاب چمکانی نے بھی پارٹی چھوڑ دی۔ کرک میں بھی 110 اراکین میں سے 70 نے پارٹی چھوڑ کر متحدہ مجلس عمل کے امیدوار کی مخالفت کا اعلان کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ بلوچستان میں کرپشن چارجز پر ملازمت سے بے دخل ہونے والے افسر کی پارٹی میں شمولیت پر لکی مروت کے رہنما مولانا سمیع الرحمان نے 69 ارکان کے ساتھ جماعت اسلامی کو خیرباد کہہ دیا اور مجلس عمل کے امیدوار کی مخالفت میں عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کا اعلان کیا۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتایا کہ لوئر اور اپر دیر جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ وہاں شفیع اللہ نامی کارکن نے سراج الحق کے خلاف این اے 7 پر کاغذات نامزدگی جمع کروائے اور جماعت بچائو موومنٹ کے نام سے تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ جماعت اسلامی کی تنظیم نے مذکورہ حلقہ انتخاب سے سراج الحق کو الیکشن لڑانے کا حتمی فیصلہ کرلیا تھا اور پارٹی میں پیدا ہونے والی بغاوت ختم کرنے کے لئے جرگہ بلایا اور شفیع اللہ کو سراج الحق کے حق میں بیٹھنے کے لئے راضی کیا گیا۔ اسی طرح سابق فنانس منسٹر مظفر سید کے خلاف پی کے 15 لوئر دیر میں جماعت اسلامی کے کارکن نور ہمدرد الیکشن لڑنے نکل پڑے۔ جبکہ ڈاکٹر بشیر نے پارٹی کے امیدوار ڈاکٹر ذاکر کے خلاف کا غذات جمع کروائے، جو بعد ازاں دبائو پر واپس لے لئے گئے۔ اپر دیر میں بھی سابق رکن اسمبلی اور جماعت اسلامی کے رہنما ملک حیات نے جماعت اسلامی چھوڑ کر نواز لیگ اور صاحبزادہ صبغت اللہ نے تحریک انصاف سے پارٹی ٹکٹ حاصل کرکے الیکشن لڑا۔ ذرائع نے بتایا کہ دیر کے حوالے سے ایک عام تاثر یہ تھا کہ نواب کے بعد دیر پر جماعت اسلامی کا قبضہ رہا ہے۔ اب تبدیلی آنی چاہئے اور یہی نعرہ جماعت اسلامی کی شکست کا سبب بنا۔ معلوم ہوا ہے کہ جماعت اسلامی کے اراکین اور ذمہ داران میں باہمی اختلافات کئی برسوں سے چل رہے تھے، جن پر آخر تک قابو نہیں پایا جا سکا۔ ذرائع کے مطابق سابق فنانس منسٹر مظفر سید کے خلاف مختلف قسم کے الزامات تھے اور انہیں دوبارہ ٹکٹ دینے کے معاملے پر ان کے صوبائی حلقے کے سو سے زیادہ ارکان جماعت نے استعفی دیا تھا۔ اس کے باوجود انہیں ٹکٹ دے دیا گیا۔ وہاں ڈاکٹر ذاکراللہ 2008ء میں بائیکاٹ کی وجہ سے پیپلز پارٹی میں چلے گئے تھے، جو امیر صوبہ مشتاق احمد خان کی کوششوں سے جماعت میں دوبارہ شامل ہوئے۔ انہیں بھی ٹکٹ دے دیا گیا، جس پر جماعت کے مقامی لوگ پارٹی قیادت سے نالاں تھے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی خیبر پختون کی قیادت کو ایک سروے کے نتیجے میں معلوم ہو گیا تھا کہ دیر میں سوائے عنایت اللہ اور محمد علی کے تمام سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود سراج الحق سے الیکشن لڑنے کی درخواست کی گئی۔ کیونکہ امید تھی کہ ان کی شخصیت اور عہدے کی وجہ سے لوگ انہیں ووٹ دے دیں گے۔ یہ کیلکولیشن بھی غلط ثابت ہوئی۔ اپر دیر میں صاحبزادہ طارق اللہ کے مقابل ان کے اپنے کزن اور جماعت اسلامی کے بانی رہنما اور 70ء کی اسمبلی کے رکن صاحبزادہ صفی اللہ کے بیٹے صبغت اللہ بلے کے ٹکٹ پر کھڑے تھے۔ سابق رکن اسمبلی محمد علی کی فتح یقینی تھی۔ لیکن ان کے حلقے میں گجر برادری کے کچھ لوگوں سے ان کا تنازعہ ہوگیا تھا، جسے حل کروانے میں وہ ناکام رہے۔ گجر برادری میں شامل بعض اراکین جماعت نے بھی انہیں ووٹ نہیں دیئے۔ جماعت اسلامی کے مقامی ذمہ داران کے خیال میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی بنی کہ دیر کے تقریباً ہر گھر کا کوئی ایک فرد روزگار کے لئے سعودی عرب میں ہے۔ سعودیہ اور دیگر بیرون ممالک میں مقیم لوگوں کی غالب اکثریت تحریک انصاف کے تبدیلی کے نعرے کے سحر میں مبتلا ہے۔ یہاں ان کی فیملی کے لوگ خاص طور پر نوجوان نسل بھی اس نعرے سے متاثر ہوگئی ہے، جس نے تحریک انصاف کی کامیابی کو یقینی بنایا۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ دیر میں ہر نوجوان کے ہاتھ میں اسمارٹ فون ہے۔ ہر فرد فیس بک استعمال کر رہا ہے۔ سوشل میڈیا نے بھی دیر کے ووٹرز کی ذہن سازی کی ہے۔ دیر کی نوجوان نسل جماعت اسلامی کی تاریخ اور خود دیر کی تاریخ سے واقف نہیں ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں کہ نواب کے دور میں دیر کیسا تھا اور جماعت اسلامی نے علاقے کی ترقی کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔ اس کی مثال یوں بھی دی جا رہی ہے کہ تبدیلی کی لہر کا اثر یہ ہے کہ ڈاکٹر یعقوب خان مرحوم کے دو بیٹے تحریک انصاف میں شامل ہو چکے ہیں۔ وہیں دیر کے ایک مقامی امیر کے خط نے جماعت اسلامی کا الٹرا ساؤنڈ کر دیا ہے، جو انتخابات سے کچھ پہلے امیر جماعت اسلامی کو لکھا گیا تھا۔ خط میں کہا گیا کہ لوئر دیر کا کارکن یا رہنما جماعت اسلامی کو اپنی زکوٰۃ کیوں نہیں دیتا۔ یہاں اعانت کا نظام کیوں نہیں ہے۔ اجتماع ارکان میں جماعت اسلامی کے شعبہ بیت المال کی رپورٹ کیوں نہیں پیش کی جاتی۔ اس کا آڈٹ کیوں نہیں کروایا جاتا۔ یہاں ہفتہ وار اجتماعات بھی نہیں ہوتے۔ جب اجتماعات ہفتہ وار نہیں تو پھر تنظیم بھی فعال نہیں۔ 5 برسوں میں کوئی بھی مہم ترتیب کے ساتھ نہیں دیکھی۔ قرآن کلاسز جو کہ دیر جماعت کا سب سے بڑا دعوتی کام سمجھا جاتا ہے، اب ایک وقتی سرگرمی ہے۔ جس کا بعد میں کوئی رزلٹ نہیں نکلتا۔ خط میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ رمضان المبارک میں دیر لوئر میں تقریباً280 دورہ تفسیر ہوئے تھے۔ اس بار کتنی مقامی جماعتوں نے ان دورہ تفسیر کے لیے کام کیا اور ان دورہ تفسیر سے کتنے کارکنان ملے اور ان میں سے کتنے لوگ رکن ہیں۔ خط میں کہا گیا کہ مشاہدے میں آیا ہے کہ یہ دورہ تفسیر بھی صرف دورہ کرنے والے عالم یا اس کے مدرسے کی کوششیں ہوتی ہیں۔ اور دعوت کا کام صرف علماء کو ٹھیکے پر دیا ہوا ہے۔ یہ بھی لکھا گیا کہ سیاسی میدان میں جماعت اسلامی دیر لوئر بالکل تحریکی روایات کے ساتھ ساتھ شریعت و دستور جماعت اسلامی کے بر خلاف ہے۔ یہاں ایک جنرل کونسلر سے لے کر اراکین اسمبلی یا اس کے امیدوار محض کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ انہیں اسمبلی کا ٹکٹ مل جائے۔ جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ نظم جماعت بھی یہی کہتی ہے کہ امیدوار صرف جیتنے والا ہونا چاہئے۔ ارکان بھی رائے دیتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے اور نظم بھی ٹکٹ دیتے ہوئے یہ نہیں دیکھتی کہ وہ شخص 62/63 پر پورا اترتا بھی ہے یا نہیں۔ خط میں کہا گیا کہ دیر لوئر میں ایک جنرل الیکشن 2013ء اور دوسرا بلدیاتی الیکشن اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ جس میں محض قوم پرستی، دھونس دھمکی اور یہ دونوں نہ ہوا تو پیسوں کے ذریعے ووٹ لیے گئے۔ خط میں امیر جماعت کو مخاطب کر کے کہا گیا کہ روایات تو یہ ہیں کہ الیکشن کی رات مساجد میں رو کر نفلیں پڑھتے اور اللہ سے کامیابی کی دعا کرتے۔ مگر دیر میں ہم نے راتوں میں حجروں میں بارگیننگ کرتے دیکھا۔ مجھے دیر کی فتح سے ہار بہت یاد آتی ہے۔ کیونکہ وہ صرف اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ آپ سے پوچھتا ہوں کہ کب ہم اللہ کی رضا کے لیے دیر میں الیکشن لڑیں گے؟۔ خط میں مقامی امیر نے کہا کہ امیر صاحب، آپ کے علاقے یا چند ایک آدھے کے علاوہ منتخب نمائندوں کے اثاثوں کے بارے میں نہ مجھے پتہ ہے اور نہ کسی ارکان اور عوام الناس کو؟ ہم تو بتاتے ہیں کہ عبدالستار افغانی نے کیا اثاثے بنائے؟ نعمت اللہ خان صاحب نے پوری ناظم کراچی کی تنخواہ الخدمت کو دی۔ محنتی صاحب، نصراللہ شیخ شہید سے لے کر ٹاون ناظمین فاروق نعمت اللہ، ڈاکٹر پرویز محمود شہید و احمد قاسم پاریکھ (مرحوم) اور بھی بہت سے نام ہیں۔ مگر ان تمام افراد کی زندگیاں آمدنی کے ذرائع و اثاثہ جات صرف جماعت کے کارکنان ہی نہیں عوام الناس سب کے لیے کھلی کتاب کے مانند ہیں۔ ان میں کچھ کروڑ پتی ہیں تو کچھ بے حد غریب۔ مگر دیر لوئر میں مجھے کیا، کسی بھی کو نہیں معلوم کہ ہمارے ایم این اے اور ایم پی اے کے ذرائع آمدن کیا ہیں؟۔ خط میں کہا گیا کہ جماعت اسلامی وی آئی پی کلچر کے خلاف ہے۔ مگر مجھے ایک آدھ منتخب نمائندے کے علاوہ تمام لوگ وی آئی پی کلچر کے دلدادہ نظر آتے ہیں۔ بڑی بڑی گاڑیاں، بنگلے بنانا اور کارکنان و عوام الناس سے فاصلہ۔ اور یہ دیکھ کر افسوس ہوا کہ ارکان و کارکنان عوام الناس کے ساتھ ساتھ مختلف سطح کے امرا بھی منتخب نمائندوں کے گھروں پر عید و دوسرے تہواروں میں طواف کرتے نظر آتے ہیں۔ جبکہ ہم نے تو جماعتی زندگی میں یہ طریقے نہیں دیکھے۔ عید ملن سے لے کر گوشت پارٹی، آم پارٹی، چائے پارٹی، افطار پارٹی، سب نظم کے تحت ہوتی ہیں اور منتخب نمائندے وہیں تشریف لاتے، سب ان سے وہیں ملتے تھے۔ مگر دیر میں ایسا کیوں نہیں ہے؟ دیر کے ایک مقام کے امیر کی جانب سے امیر جماعت اسلامی پاکستان کو لکھے جانے والے خط نے جماعت اسلامی کی تنظیم پر ایک ایسا سوالیہ نشان لگا دیا ہے، جس کا جواب ایک مقام کے امیر کو خود امیر جماعت کی جانب سے بھی نہیں دیا جا سکا ہے۔ (’’امت‘‘ کے پاس خط کی کاپی محفوظ ہے)۔
دوسری جانب بونیر میں جماعت اسلامی کی ناکامی سے متعلق تفصیلات حاصل کی گئیں تو معلوم ہوا کہ جماعت اسلامی کا واضح اکثریتی ضلع بونیر این اے 9 اور 3 صوبائی نشستوں پی کے 20، پی کے 21 اور پی کے 22 پر مشتمل ہے۔ وہاں عوامی نیشنل پارٹی، تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (ف) بڑی جماعتیں سمجھی جاتی ہیں۔2013ء کے انتخابات میں پی کے 20 پر جمعیت علمائے اسلام، پی کے 21 پر جماعت اسلامی اور پی کے 22 پر عوامی نیشنل پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ این اے 9 کی نشست جماعت اسلامی کے حصے میں آئی تھی۔ حالیہ عام انتخابات سے قبل بونیر میں سیاسی طور پر بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، جس نے نتائج یکسر تبدیل کر کے رکھ دیئے۔ تحریک انصاف کی مقبولیت کے باعث سابقہ دور حکومت میں جماعت اسلامی سے منتخب ایم این اے شیر اکبر خان نے جماعت اسلامی کو خیبر باد کہہ دیا اور تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے، پی کے 22 کے امیدوار جمشید خان جو2013ء کے انتخابات میں اے این پی سے محض ایک ہزار ووٹ سے نشست ہارے تھے، وہ بھی شیر اکبر خان کے ہمراہ تحریک انصاف میں شامل ہوگئے اور تحریک انصاف نے اسی حلقے سے ان کے بیٹے کبیر خان کو صوبائی نشست پر اپنا امیدوار نامزد کیا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں اسی حلقے سے عوامی جمہوری اتحاد کے پلیٹ فارم سے شہرام خان نے انتخابات میں پانچ ہزار سے زیادہ ووٹ لئے تھے اور وہ اس بار جماعت اسلامی میں شامل ہوگئے اور جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر انتخابات میں حصہ لیا اور ہار گئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بونیر روایتی طور پر جماعت اسلامی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہاں اگر ایم ایم اے کا اتحاد بن گیا ہوتا تو ایک قومی اور دو صوبائی نشستیں ایم ایم کے حصے میں آنا یقینی تھا۔ تاہم ایسا نہیں ہوا۔ معلوم ہوا ہے کہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کے امیدواروں کی کتاب کے نشان سے الیکشن میں حصہ لینے میں رکاوٹ کی اصل وجہ یہ بنی کہ سابق اسپیکر خیبرپختون پی کے 20 کی نشست جو 2013ء کے انتخابات میں چند سو ووٹوں سے ہار گئے تھے، اس بار چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جبکہ جمعیت علمائے اسلام کا موقف تھا کہ یہ نشست وہ
2013ء میں جیت چکے ہیں، اس لئے اس نشت پر اس کا حق ہے۔ دوسری طرف جے یو آئی میں اے این پی کے سابق ممبر قومی اسمبلی استقبال خان کی شمولت بھی ایک وجہ بنی۔ کیونکہ وہ این اے کے مضبوط امیدوار تھے۔ وہ خود ایک مرتبہ بونیر سے رکن قومی اسمبلی، جبکہ ان کے والد تین بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ جس کی وجہ سے وہ نشست چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ اس نشست پر جماعت اسلامی کا موقف تھا کہ وہ یہ نشست 2013ء میں جیت چکے ہیں، اس لئے اتحاد میں یہ نشست اسے دی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) سے پی کے 21 پر انتخابات میں حصہ لینے والے سردار علی خان جو حال ہی میں جمعیت علمائے اسلام میں شامل ہوئے تھے، کسی بھی صورت میں دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ وہ پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ اگر پارٹی نے ان کو ٹکٹ نہ دیا تو وہ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ مذکورہ وجوہات کی بنا پر بونیر میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی اور جے یو آئی کے امیدواروں نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ جماعت اسلامی کے دو امیدواروں کو پی کے 21 اور پی کے 22 پر کتاب کا نشان مل گیا، جبکہ پی کے 20 اور این اے 9 میں جمعیت علمائے اسلام کے امیدواروں کو کتاب کا نشان مل گیا۔ لیکن جماعت اسلامی نے این اے پر مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اتحاد کرلیا اور پی کے 20 پر بخت جہان خان کو جیپ کے نشان پر آزاد حیثیت میں الیکشن لڑوایا۔ دوسری جانب پی کے 21 اور پی کے 22 پر جے یو آئی نے اپنے امیدوار الیکشن میں اتار دیئے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہاں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا جاتا تو ساری نشستیں جیتی جاسکتی تھیں، تاہم ایسا نہ ہوا اور نتیجتاً دونوں جماعتیں بونیر سے ایک بھی نشست حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ دو صوبائی نشستیں اور ایک قومی اسمبلی کی نشست تحریک انصاف کے حصے میں آئیں اور ایک صوبائی سیٹ عوامی نیشنل پارٹی کو مل گئی۔ جماعت اسلامی کے مقامی ذمہ داران کے خیال میں اتحاد غیر فطری تھا، جس کی وجہ سے الیکشن متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے نہیں جیتا جاسکتا تھا۔ وہیں بیرون ملک مقیم بونیریوں نے پی ٹی آئی کے لئے کمپین چلائی اور من پسند امیدواروں کو کامیاب کروایا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment