کراچی میں اجتماعی زیادتی کے واقعات 100 فیصد بڑھ گئے

عمران خان
کراچی میں گزشتہ ڈھائی برسوں کے دوران اجتماعی زیادتی کے واقعات میں 100 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کیسز کے حل کیلئے ڈی این اے رپورٹ انتہائی اہمیت کی حامل ہے، مگر فنڈ نہ ملنے کے باعث پولیس افسران یہ ٹیسٹ نہیں کراتے۔ جبکہ مقدمات درج کرانے والے غریب افراد بھی فیس کی ادائیگی کیلئے رقم کا بندوبست نہیں کر پاتے، جس سے ملزمان بچ جاتے ہیں۔
پولیس ریکارڈ کے مطابق 2016ء تک شہر میں ہر سال اوسطاً20 سے 25 گینگ ریپ کی وارداتیں ہورہی تھیں۔ مگر اس کے بعد سے ایسے گھنائونے واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اب سالانہ 45 سے 50 کے درمیان جا پہنچے ہیں۔ پولیس کے اہم ذرائع نے انکشاف کیا کہ زیادتی کے واقعات کی روک تھام اور ان میں ملوث ملزمان کے خلاف مضبوط مقدمات تیار کرنا صوبائی حکومت اور سندھ پولیس کے اعلیٰ حکام کی ترجیح نہیں۔ پولیس کے تفتیشی افسران کو ڈی این اے رپورٹ کروانے کیلئے فنڈز نہیں ملتے۔ ایک ڈی این اے رپورٹ کی فیس 21 سے 28 ہزار روپے ہے۔ لاہور، اسلام آباد اور جامشورو میں لیبارٹریز کی انتظامیہ فیس وصول کئے بغیر ڈی این اے کی رپورٹ تفتیشی افسران کو نہیں دیتیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق گینگ ریپ کے مقدمات میں تفتیش کرنے والے پولیس افسران کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ڈی این اے رپورٹ کا حصول ہوتا ہے، جس پر پورے کیس کا دارومدار ہوتا ہے۔ اسی رپورٹ کی بنیاد پر ملزمان کے خلاف مضبوط کیس قائم ہوتے ہیں۔ ڈی این اے رپورٹ جس قدر تاخیر سے موصول ہوتی ہے، ملزمان کو اتنا ہی فائدہ پہنچتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وارداتیں بڑھتی جا رہی ہیں۔
’’امت‘‘ کی جانب سے اس سنگین معاملے پر پولیس کے بعض سینئر تفتیشی افسران سے تفصیلی بات چیت کی گئی، تو انہوں نے انکشاف کیا کہ اجتماعی زیادتی کے مقدمات کی تفتیش کے ذمہ دار تمام اضلاع کے ایس ایس پی انویسٹی گیشن ہوتے ہیں۔ کیونکہ قتل، چوری، ڈکیتی اور دیگر ایسے مقدمات کی تحقیقات پر ماتحت تفتیشی افسران روایتی طریقہ اپنا کر مخبروں کے جال کے ذریعے معلومات حاصل کر لیتے ہیں۔ مگر اجتماعی زیادتی کے مقدمات میں ملوث ملزمان زیادہ تر یا تو بااثر ہوتے ہیں یا پھر پوری منصوبہ بندی کے ساتھ واردات کرتے ہیں۔ اس لئے ان واقعات میں تکنیکی سپورٹ اور ڈی این اے رپورٹ کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ معاشرے کی المناک حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی متمول یا بااثر گھرانہ ایسی واردات کا شکار ہوجائے تو ان کے مقدمات فوری طور پر حل ہوجاتے ہیں، جبکہ غریب گھرانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر تحقیقات کئی کئی سال چلتی رہتی ہے۔ اس کا سب سے سنگین پہلو یہ بھی ہے کہ جن کے پاس ڈی این اے کی رپورٹ جلد از جلد کرانے کیلئے فیس کے پیسے ہوتے ہیں ان کے کیس جلدی حل ہوجاتے ہیں۔ جبکہ غریب افرادکے معاملے میں تفتیشی افسران یہ رسک نہیں لیتے کہ وہ اپنی جیب سے ڈی این اے رپورٹ کی فیس ادا کریں۔ کیونکہ یہ پیسے واپس لینے کیلئے پولیس افسران فنڈز ملنے کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں، مگر انہیں یہ رقم بالا ہی بالا ہضم ہوجانے کے باعث نہیں ملتی۔
پولیس ریکارڈ سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق 2011ء میں کراچی میں مجموعی طور پر گینگ ریپ کیخلاف 11 مقدمات درج ہوئے تھے۔ ان میں ضلع جنوبی کا ایک، ضلع ملیر کے دو اور ضلع شرقی کے 8 واقعات شامل ہیں۔ اسی طرح 2012ء میں شہر بھر میں 22 واقعات پیش آئے، جن میں سے ضلع ایسٹ میں 8، ضلع جنوبی میں تین، ضلع ملیر میں 6، ضلع وسطی میں 2 اور ضلع غربی میں 3 واقعات رپورٹ ہوئے۔ سال 2013ء میں 27 واقعات میں سے ضلع جنوبی میں 2، ضلع شرقی میں 12، ضلع ملیر میں 10، ضلع غربی میں ایک اور ضلع وسطی میں 2 مقدمات درج ہوئے۔ سال 2014ء میں شہر بھر میں گینگ ریپ کے 26 واقعات پر مقدمات بنے، جن میں سے ضلع جنوبی میں 9، ضلع شرقی میں 5، ضلع ملیر میں 4، ضلع غربی میں 4 اور ضلع وسطی میں 4 مقدمات درج ہوئے۔ سال 2015ء میں 13 واقعات رونما ہوئے، جن میں سے ضلع جنوبی میں 3، ضلع شرقی میں 8 اور ضلع غربی میں 2 مقدمات رپورٹ ہوئے۔ تاہم 2016ء میں گینگ ریپ کی وارداتیں 100 فیصد اضافے کے ساتھ 44 ہو گئیں۔ ضلع جنوبی میں 11، شرقی میں 22، غربی میں 10 اور ضلع وسطی میں ایک واقعہ پر مقدمہ درج کیا گیا۔ جبکہ اسی شرح کے ساتھ سال 2017ء میں گینگ ریپ کے 41 واقعات پر مقدمات ہوئے، جن میں سے ضلع جنوبی میں 11، شرقی میں 24، غربی میں 4، ضلع سینٹرل میں 2 واقعات پیش آئے۔ پولیس ریکارڈ سے معلوم ہوا ہے کہ 2018ء کے پہلے 6 ماہ میں ان واقعات کی شرح میں گزشتہ دو برسوں کے مقابلے میں مزید اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ جون کے آخر تک شہر بھر میں اجتماعی زیادتی اور ریپ کے 25 واقعات پر مقدمات ہوئے، جن میں سے ضلع جنوبی میں 5، شرقی میں 16، غربی میں 3 اور ضلع وسطی میں ایک واقعہ شامل ہے۔ گزشتہ 8 برسوں کے اعداد وشمار سے معلوم ہوتا ہے کہ کراچی کے ضلع شرقی میں دیگر اضلاع کے مقابلے میں اجتماعی زیادتی کے واقعات 200 فیصد تک زیادہ ہوئے۔
ضلع جنوبی اور شرقی میں گزشتہ 35 برس سے شعبہ تفتیش سے منسلک رہنے والے ایک سینئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پانچ برس قبل انہوں نے ایک گینگ ریپ کیس میں تفتیش کیلئے ڈی این اے رپورٹ کروانے کیلئے سیمپل اسلام آباد لیبارٹری میں بھجوائے تھے۔ تاہم پانچ برس گزرجانے کے باوجود اس کے پیسے انہیں نہیں ملے۔ انہوں نے اس وقت 21 ہزار روپے ادا کئے تھے، تاکہ کیس جلد حل ہو جائے اور ساتھ ہی بل سرکاری طریقہ کار سے متعلقہ حکام کو بھی بھجوا دیا تھا۔ لیکن جب کافی مہینوں تک انہیں پیسے نہ ملے تو انہوں نے ایک یاد دہانی کا سرکاری بل بنا کر بھیجا۔ تاہم وہاں سے انہیں جواب موصول ہوا کہ ان کے پیسے تو کافی عرصہ پہلے سینٹرل پولیس آفس میں متعلقہ اعلیٰ افسر کو بھجوا دیئے گئے تھے، جس کے بعد ان کی پیسے لینے کی ہمت نہیں ہو سکی۔ اس سینئر افسر کا مزید کہنا تھا کہ اجتماعی زیادتی کے کیسوں میں وقت اور رپورٹ کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ اگر دونوں نہ ہوسکیں تو پھر ملزمان کو فائدہ پہنچتا ہے۔
اس ضمن میں امت کو ضلع ملیر میں 30 برسوں سے شعبہ تفتیش سے منسلک رہنے والے ایک ڈی ایس پی نے بتایا کہ اس وقت مختلف لیبارٹریز میں ڈی این اے رپورٹ کی فیس 21 سے 27 ہزار روپے ہے۔ پہلے صرف لاہور میں موجود ایک فارنسک لیبارٹری سے یہ رپورٹ بنوائی جاتی تھی۔ بعد ازاں اسلام آباد میں قائم ہونے والی اے یو لیبارٹری سے رپورٹس منگوائی جاتی رہیں۔ تاہم جب سے جامشورو ڈی این اے لیبارٹری کا قیام عمل میں آیا ہے سندھ اور بلوچستان کے کیسوں کیلئے پولیس افسران زیادہ تر یہیں سے رپورٹ لیتے ہیں۔ ڈی ایس پی کا مزید کہنا تھا کہ اجتماعی زیادتی کے کیسوں میں تفتیشی افسران صرف اور صرف فنڈز نہ ملنے کی وجہ سے ہی سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں، کیونکہ انہیں پولیس کی جانب سے فنڈز بالکل نہیں ملتے۔ حالانکہ پولیس کے تفتیشی شعبہ کیلئے باقاعدہ فنڈز مختص ہوتے ہیں، جو انہیں کیس کی تفتیش پر ہونے والے اخراجات کا بل بنا کر بھیجنے پر ملنے چاہئیں، لیکن ایسا ہوتا نہیں۔ پولیس افسر نے بتایا کہ اس وقت سندھ پولیس کا ترقیاتی بجٹ اربوں روپے ہے۔ تاہم پولیس کے شعبہ تفتیش کے اس پہلو پر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا جارہا، جس کی وجہ سے غریب شہریوں کو انصاف کے حصول کیلئے سالوں دربدر ہونے کے باجود انصاف نہیں مل پاتا۔ اس وقت پولیس کے شعبہ تفتیش کی کیس حل کرنے کی صلاحیت ایک فیصد رہ گئی ہے۔ یعنی 100 میں سے صرف ایک کیس ہی حل ہو پاتا ہے جو متعلقہ حکام کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment