پنجاب حکومت سازی کی دوڑ میں تحریک انصاف آگے

امت رپورٹ
پنجاب میں حکومت بنانے کے لئے تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان مطلوبہ ارکان کی حمایت کے لئے دوڑ جاری ہے۔ گزشتہ تین روز کے دوران کئی آزاد ارکان پی ٹی آئی میں باقاعدہ شامل ہو چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان فواد چوہدری نے مزید چار ارکان کے پی ٹی آئی میں شامل ہونے اور دیگر آزاد ارکان کے ساتھ مکمل رابطے میں ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ق) کے چوہدری برادران پہلے ہی تحریک انصاف کی حمایت کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ قاف لیگ کے ایک وفد نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان سے ملاقات بھی کی ہے۔ جس کے بعد چوہدری پرویز الہی نے گجرات سے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یوں پنجاب میں نمبر گیم پورے کرنے کی دوڑ میں تحریک انصاف آگے نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت کے لئے 149 ارکان کی حمایت درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 129 ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 123 ہے اور وہ 6 نشستوں کا فرق مٹانے کیلئے پوری کوششیں کر رہی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قاف لیگ کی 7 نشستیں ہیں، جو اس نے تحریک انصاف کے ساتھ سیٹ ایڈجسمنٹ کرکے حاصل کیں۔ ذرائع کے مطابق نواز لیگ نے ق لیگ کے ساتھ رابطہ کیا تھا کہ وہ ان کے اتحادی بن جائیں، لیکن چوہدری بردران تیار نہیں ہوئے۔ اس کے علاوہ پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب اسمبلی میں 6 نشستیں ملی ہیں، جن کے لیے پی پی یہ سودا کر رہی ہے کہ نواز لیگ قومی اسمبلی میں بلاول زرداری کو قائد حزب اختلاف بنانے پر راضی ہو جائے تو اس کے بدلے وہ اپنی چھ سیٹوں کے ساتھ اس کی حمایت کریں گے۔ لیکن ذرائع کہ مطابق شہباز شریف نہیں چاہتے کہ وہ پنجاب میں حکومت بنائیں۔ اس کی کوئی ٹھوس وجہ تو سامنے نہیں آئی، البتہ ان کے رویے میں یہ تبدیلی گزشتہ جمعرات کو میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد آئی ہے۔ ذرائع کے بقول پیپلز پارٹی کی جانب سے بلاول کو قائد حزب اختلاف بنانے کا مطالبہ نہایت بچگانہ ہوگا۔ شہباز شریف قومی اسمبلی میں جانے کا فیصلہ کرتے ہیں تو قائد حزب اختلاف کا منصب انہی کا حق ہوگا۔ اگرچہ مشاہد حسین بھی کافی دوڑ دھوپ کر رہے ہیں اور انہوں نے قاف لیگ سے بھی حکومت سازی کے لیے رابطہ کیا۔ اسی سلسلے میں انہوں نے چودھری نثار سے بھی رابطہ کیا اور چوہدری نثار نے صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے اپنا ووٹ نون لیگ کو دینے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ چودھری نثار کے لیگی رہنمائوں کو مثبت جواب کے بعد نواز لیگ کو حکومت سازی کی یقین دہانی کرانے والے امیدواروں کی تعداد 13 ہوگئی ہے۔ تاہم اس کے باوجود مسلم لیگ (ن) کیلئے پنجاب میں حکومت بنانا نہایت مشکل ہوگا۔ کیونکہ پہلے ہی دن شہباز شریف نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا تھا، جس پر پنجاب کے آزاد نو منتخب اراکین نے تحریک انصاف کی جانب دیکھنا شروع کر دیا تھا۔ اگرچہ حمزہ شہباز نے پریس کانفرنس کر کے یہ دعویٰ کیا کہ پنجاب میں حکومت وہ بنائیں گے، لیکن اس حکومت سازی کے لئے ان کی جانب سے سنجیدہ کوششیں نہیں ہو سکی ہیں۔ آزاد اراکین کی خواہش یہ ہے کہ پنجاب میں بھی اسی جماعت کی حکومت ہو، جس کی مرکز میں حکومت ہو۔ سردار ایاز صادق اور سعد رفیق نے بھی ق لیگ سے بات کی، لیکن ق لیگ کی اولین اور آخری ترجیح تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد ہے۔ نواز لیگ کی جانب سے پنجاب کی وزارت علیا کے امیدوارحمزہ شہباز ہیں، جبکہ تحریک انصاف میں وزیر اعلیٰ کے کئی امیدوار ہیں۔ ان میں عبدالعلیم خان اور فواد چوہدری کے علاوہ صوبائی نشست ہارنے کے باوجود شاہ محمود قریشی بھی شامل ہیں۔ عبدالعلیم خان کی پشت پناہی جہانگیر ترین کر رہے ہیں۔ جبکہ جہانگیر ترین ہی آزاد امیدواروں سے رابطے کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے ترجمان فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف کو 180 ارکان کی حمایت حاصل ہے، جو حکومت بنانے کے لئے کافی ہے۔ پیر کے روز قاف لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھی عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کی اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے معاملات پر گفتگو ہوئی۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی جانب سے پنجاب کی وزارت علیا دینے کا عندیہ دینے کے بعد چوہدری پرویز الہٰی نے گجرات سے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ توقع ہے کہ وہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ جس کا قاف لیگ پہلے ہی فیصلہ کر چکی ہے۔ چوہدری پرویز الہی کا انتخاب اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ پنجاب کی بیوروکریسی کو جانتے ہیں۔ آزاد ارکان سے رابطے میں ہیں اور یہ کہ وہ مسلم لیگ (ن) میں دراڑ بھی ڈال سکتے ہیں، جبکہ پیپلز پارٹی کو بھی ساتھ ملا سکتے ہیں۔ اس سے قبل اس بات پر غور کیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف کے میجر (ر) طاہر صادق جو مسلم لیگ ق کے سابق رہنما ہیں اور چوہدری شجاعت حسین کے بہنوئی ہیں، کو وزیر اعلیٰ بنایا جائے۔ وہ اٹک سے قومی اسمبلی کی دو اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست سے کامیاب ہوئے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment