خلاصۂ تفسیر
سو یہ کافر خود ہی ( اس ) برائی (کے وبال ) میں گرفتار ہوں گے (چنانچہ اس قصد میں ناکام ہوئے اور بدر میں مقتول ہوئے، آگے پھر توحید کے متعلق کلام ہے کہ) کیا ان کا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی اور معبود ہے؟ خدا تعالیٰ ان کے شرک سے پاک ہے اور (آگے پھر رسالت کے متعلق ایک کلام ہے وہ یہ کہ یہ لوگ نفی رسالت کے لئے ایک بات یہ بھی کہا کرتے ہیں کہ ہم تو آپ کو اس وقت رسول جانیں جب ہم پر ایک آسمان کا ٹکڑا گرا دو، سو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو دعویٰ پر خواہ وہ دعویٰ رسالت ہو یا اور کچھ ہو، مطلق دلیل کا بشرطیکہ صحیح ہو قائم کر دینا کافی ہے، جو کہ دعویٰ رسالت ہی کے وقت سے بلا کسی قدح و جرح کے قائم اور کسی خاص دلیل کا قائم ہونا ضروری نہیں اور نہ اس سے دعویٰ نبوت میں قدح لازم آتا ہے، تبرعاً کوئی فرمائشی دلیل قائم کی جاوے تو یہ اس وقت ہے جب اس میں کوئی مصلحت ہو، مثلاً درخواست کنندہ طالب حق ہو، تو یہی سمجھا جاوے کہ خیر اسی ذریعہ سے اس کو ہدایت ہو جاوے گی اور کوئی معتدبہ حکمت ہو اور یہاں یہ مصلحت بھی نہیں، کیونکہ ان کی یہ فرمائش حق کے لئے نہیں بلکہ محض تعنت و عناد کی راہ سے ہے اور وہ ایسے ضدی ہیں کہ) اگر (ان کا یہ فرمائشی معجزہ واقع بھی ہو جاوے اور) وہ آسمان کے ٹکڑے کو دیکھ ( بھی لیں) کہ گرتا ہوا آ رہا ہے تو (اس کو بھی) یوں کہہ دیں کہ یہ تو تہ بتہ جما ہوا بادل ہے (جیسے دوسرے آیت میں ہے، پس جب مصلحت بھی نہیں ہے اور دوسری مصلحتوں کی نفی کا بھی ہم کو علم ہے، بلکہ ان فرمائشی معجزات کا وقوع خلاف حکمت ہے، پس جب ضرورت نہیں مصلحت نہیں بلکہ خلاف مصلحت ہے پھر کیوں واقع کیا جاوے اور نہ اس کے عدم وقوع سے نبوت کی نفی ہوتی ہے، آگے ان کے غلو فی الکفر پر جو اوپر کی آیتوں سے اور شدت عناد پر جو کہ آخر کی آیت سے معلوم ہوتا ہے بطور تفریع کے حضورؐ کو تسلی دی گئی ہے۔) (جاری ہے)