عمرو بن مسعدہ کہتے ہیں: ’’مجھے اس بوڑھے کے قصے پر بڑا تعجب ہوا، میں نے اس سے کہا کہ چلو، تم پہلے اپنے گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرو اور اس کے بعد میرے پاس آؤ، تو میں تمہیں وہ کچھ دوں گا، جو تم جیسے آدمی کے لیے مناسب ہوگا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور دعا دے کر چلا گیا اور ہم بغداد میں داخل ہوئے، اس بات کو لمبا عرصہ گزرنے کی وجہ سے میں اس شخص کو بھول گیا۔ سو ایک دن میں مامون کے گھر جانے کے لیے سواری پر سوار ہوا تو میں نے اسی بوڑھے کو ایک خچر پر سوار اچھی حالت میں دیکھا۔
اس کے ساتھ ایک سیاہ فام لڑکا تھا اور وہ دونوں قیمتی کپڑوں میں ملبوس تھے۔
جب میں نے اس کو دیکھا تو اس کا استقبال کیا اور کہا بتاؤ ’’کیا قصہ ہے کہ اتنے عرصے سے غائب تھے؟‘‘
اس نے کہا: ’’لمبا قصہ ہے، میں تمہارے پاس کل آکر تمہیں سناؤں گا۔‘‘
جب کل ہوئی تو وہ میرے پاس آیا، میں نے اس سے کہا: ’’اپنا قصہ سناؤ! مجھے تمہیں سلامت دیکھ کر اور تمہاری ظاہری حالت دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی ہے۔‘‘
اس نے کہا: ’’جب میں تمہارے ٹپ میں سے اتر کر چلا اور اپنے گھر جانے کا ارادہ کیا تو میں نے اپنے گھر پہنچ کر اس کی دیوار کو جو سڑک سے ملتی ہے اسی طریقے سے پایا، جس طریقے سے میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔ بجز اس کے کہ گھر کا دروازہ چمک دار اور صاف ستھرا تھا اور اس پر کچھ دکانیں تھیں، چوکی دار تھے، ان دکانوں میں سے ایک سبزی کی دکان بھی تھی۔ میں نے کہا: افسوس! شاید میری باندی مر گئی ہوگی اور کوئی پڑوسی میرے گھر کا مالک بن گیا ہوگا اور اس نے اس گھر کو کسی سرکاری آدمی کے ہاتھوں بیچ دیا ہوگا۔
پھر میں سبزی کی دکان کی طرف بڑھا اور سبزی فروش کو میں محلے میں سے جانتا تھا، اس وقت اس کی دکان پر ایک نوجوان لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔
میں نے اس سے کہا: ’’تم فلاں سبزی والے کے کیا لگتے ہو؟‘‘
تو اس نے کہا: ’’میں اس کا بیٹا ہوں۔‘‘
میں نے کہا: ’’وہ کب مرا؟‘‘
اس نے کہا: ’’ بیس سال پہلے۔‘‘
میں نے کہا: ’’یہ گھر کس کا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’امیر المؤمنین کی دایہ کے بیٹے کا ہے اور وہ اس وقت وزیر خزانہ ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’وہ کس نام سے جانا جاتا ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’فلاں خزانچی کے بیٹے سے، پھر اس نے میرا نام لیا۔‘‘
میں نے کہا: ’’یہ گھر اس کو کس نے بیچا؟‘‘
اس نے کہا: ’’یہ گھر اس کے والد کا ہے۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیا اس کا باپ زندہ ہے۔‘‘
کہنے لگا: ’’ نہیں۔‘‘
میں نے کہا: ’’کیا تم ان کے قصے کے بارے میں کچھ جانتے ہو؟‘‘
کہنے لگا: ’’ہاں، مجھ کو میرے والد نے بتایا تھا کہ اس شخص کا باپ خزانچی تھا، پھر وہ غریب ہو گیا اور اس شخص کی ماں کو درد زہ ہونا شروع ہوگیا تو اس کا والد اس کے لیے کچھ لینے نکلا، سو وہ لاپتہ ہو کر ہلاک ہوگیا۔‘‘
میرے والد نے کہا: ’’میرے پاس اس آدمی کی ماں کی طرف سے ایک پیغام رساں اس کے لیے کچھ مانگنے آیا۔ وہ مجھ سے مدد کی طلب گار تھی تو میں نے ولادت کی ضروریات کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور اس کو دس درہم دیئے۔ سو اس نے ان کو خرچ بھی نہ کیا تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ امیر المؤمنین ہارون رشید کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا ہے اور اس پر تمام دائیوں کو پیش کیا جا چکا ہے، مگر اس نے کسی کا بھی دودھ نہ پیا۔ اس کے لیے آزاد عورتوں کو بھی طلب کر لیا گیا، مگر اس نے ان میں سے بھی کسی کا دودھ نہ پیا اور وہ مسلسل کسی دودھ پلانے والی کی تلاش میں تھے۔‘‘
میں نے ایک آدمی کو جو دایہ کی تلاش میں تھا، اس بچے کی ماں کے بارے میں بتایا۔ سو وہ ہارون رشید کے گھر پہنچائی گئی اور جب بچے کو اس کا دودھ پلایا گیا تو اس نے اس کو پی لیا تو اب وہ بچے کو دودھ پلانے لگی اور وہ بچہ مامون الرشید تھا۔ چنانچہ وہ ان کے ہاں رہنے لگی اور ان کی طرف سے اس کو بڑا فائدہ پہنچا۔
پھر مامون الرشید خراسان کی طرف چلا گیا اور یہ عورت اور اس کا بیٹا بھی اس کے ساتھ چلے گئے۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی جب مامون اور اس کی فوج واپس آئی تو ہم نے دیکھا کہ اس عورت کا بچہ بڑا ہوگیا ہے اور میں نے اس کو اس سے پہلے نہیں دیکھا تھا اور میرا باپ بھی مر چکا تھا۔
لوگوں نے مجھ سے کہا: ’’یہ فلاں خزانچی اور خلیفہ ہارون کی دایہ کا بیٹا ہے۔ اس نے اس گھر کو بنوایا اور اس کو درست کیا۔‘‘
وہ شخص کہتا ہے: ’’ میں نے سبزی فروش کے بیٹے سے کہا: ’’کیا تمہیں اس کی ماں کا پتہ ہے کہ وہ زندہ ہے یا مر چکی ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’ وہ زندہ ہے۔ کچھ دن خلیفہ کے گھر گزارتی ہے اور کچھ دن یہاں رہتی ہے۔‘‘ (جاری ہے)