دو مارچ 2002ء کو ایک مرتبہ پھر میں نے دونوں بزرگوں حافظ شیرازی اور شیخ سعدی کی آرامگاہوں پر حاضری دی، کیونکہ پہلے دن ہر چیز بڑی جلدی میں دیکھی تھی کہ وقت کم تھا۔ خاص طور سے حافظ شیرازی کے مزار کا جغرافیہ پوری طرح ازبر نہ ہوا تھا۔ مزار سعدی کا چکر لگاکر اور مزید تصویر کشی کرنے کے بعد جب مزار حافظ پہنچا تو مجھے چائے کی طلب ہونے لگی۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ یہاں ایک اچھا ریستوران ہے۔ وہاں پہنچا تو ریستوران کے دروازے کے ساتھ ایک تختی پر نمایاں حروف میں ’’سُنّتی‘‘ لکھا دیکھ کر بڑا مایوس ہوا کہ ابھی تک میں ایران میں کسی ایسے رستوران یا ہوٹل میں نہ گیا تھا، جس پر سنتی کی تختی لگی ہوئی تھی۔ کیونکہ میں اپنی جہالت کی وجہ سے اس غلط فہمی میں مبتلا تھا کہ سنتی کی تختی سے یہ مراد ہے کہ یہ ریستوران اہلسنت و الجماعت لوگوں کی ملکیت ہے اور انہی لوگوں کیلئے مخصوص ہے۔ اسی بنا پر میں یہ سمجھتا تھا کہ ایسے ریستورانوں میں جانا فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے۔ حالانکہ میں خود اہل سنت و الجماعت سے تعلق رکھتا ہوں۔ مگر کیونکہ مجھے چائے اور کچھ کھانے کی طلب کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھی و نیز وہاں دیگر کوئی اور ریستوران یا دکان نہ تھی، جہاں سے میں اپنے معدے کی طلب پوری کرسکتا اس لئے مجبوراً فیصلہ کیا کہ کم از کم ایک دفعہ تو ایسے ریستوران میں جاکر دیکھوں کہ یہاں کیسا بندوبست ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد استقبالیے کی کھڑکی پر پہنچا تو وہاں بیٹھے شریف آدمی نے بتایا کہ آج کسی مجبوری کی وجہ سے ریستوران ذرا دیر سے کھلے گا۔ برائے مہربانی آپ پچیس منٹ کے بعد تشریف لایئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ شریف آدمی ہر نئے امیدوار سے یہی کہہ رہا تھا۔ کچھ لوگ تو وہیں باہر بیٹھ کر یا کھڑے ہوکر انتظار کی گھڑیاں پوری کررہے تھے اور کچھ مزار حافظ کی طرف واپس جا رہے تھے۔ پچیس، تیس منٹ گزار کر میں واپس آیا تو دیکھا کہ سب لوگ ابھی باہر ہی انتظار میں بیٹھے یا کھڑے ہیں۔ مگر میں پھر بھی کھڑکی پر گیا اور اس شریف آدمی سے معلوم کیا کہ ریستوران کب کھلے گا؟ تو ان صاحب نے پھر وہی پرانا جواب دیا ’’پچیس منٹ بعد‘‘۔ اس پر میں نے تعجب کا اظہار کیا اور اعتراضاً کچھ کہنے کا ارادہ کیا کہ معاً دل نے کہا کہ تو دیار غیر میں ہے، یہاں برداشت سے کام لے! اور میں خاموش ہوگیا۔ میری اس کیفیت کو قریب کھڑی ہوئی ایک دراز قد، باوقار، خوش لباس و خوبصورت ایرانی خاتون نے بھانپ لیا اور یہ خیال کرکے کہ میں ایک خارجی (غیر ملکی) ہوں اور کھڑکی والے صاحب کی بات نہیں سمجھ پایا، مجھ سے سلیس انگلش میں کہا کہ یہ شخص آپ کو بتا رہا ہے کہ آپ 25 منٹ بعد آیئے، اس وقت تک ریستوران کھل جائے گا۔ اس پر میں نے خاتون سے اس کا شکریہ ادا کرنے کے بعد عرض کیا کہ محترمہ، بات تو ان صاحب کی میں بخوبی سمجھ گیا تھا مگر مجھے ایک اور بات پریشان کر رہی تھی۔ اس پر اس خاتون نے تعجب سے کہا کہ وہ کیا بات ہے؟ میں نے کہا کہ محترمہ میں ان صاحب کے پاس تیس منٹ پہلے بھی آیا تھا۔ اس وقت بھی اس شریف آدمی نے مجھ سے یہی کہا تھا کہ 25 منٹ بعد رستوران کھل جائے گا اور اب میں 30 منٹ کے بعد آیا ہوں تو یہ شریف آدمی پھر مجھے 25 منٹ بعد آنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اس پر وہ خاتون بڑی متعجب ہوئی اور پھر غصے کی حالت میں تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی منیجر کے آفس میں داخل ہوگئی۔ میں نے کچھ دیر نتیجے کا انتظار کیا اور پھر مزار حافظ کی طرف چل دیا۔ ایک دفعہ مزید گھوم پھر کر کوئی پندرہ یا بیس منٹ بعد واپس آیا تو ریستوران کھل چکا تھا اور تمام امیدوار اندر جاچکے تھے۔ دراز قد اور پر وقار خاتون کی دخل اندازی اور سرزنش کام آچکی تھی۔
ریستوران کے اندر داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ دراصل سُنّتی رستوران سے مراد اہلسنت و الجماعت کا رستوران نہیں بلکہ روایتی یا ٹریڈیشنل ریستوران تھا۔ چہار دیواری میں طاق بنے ہوئے تھے۔ ان میں قالین بچھے ہوئے تھے اور پشت لگانے کے لئے فوم کی گدیاں تھیں۔ جگہ جگہ چھوٹے حقے یا شیشے رکھے ہوئے تھے۔ مرکز میں ایک خوشنما تالاب تھا، جس کے بیچوں بیچ ایک عظیم الجثہ حقہ اور اس کے ساتھ دو عدد بڑے قد والی مے نوشی کی صراحیاں رکھی تھیں۔ غرض زمانہ قدیم کے ایران کی محفل سجی تھی۔ ساتھ ہی نئی نسل اور خارجی مہمانوں کا لحاظ کرتے ہوئے میز کرسیوں کا بندوبست بھی تھا۔ قصہ مختصر بڑا دلکش سماں تھا۔ ریستوران کے مہمانوں میں واضح اکثریت جوانوں کی تھی، جن میں مرد و زن دونوں شامل تھے۔ مگر تمام خواتین باپردہ اور حجاب کے ساتھ تھیں۔ میں نے سبز چائے اور کیک کا آرڈر دیا اور خواہش کردہ اشیا کے آنے تک اندرون ریستوران کی چند تصاویر اتارلیں۔ مگر میری سب سے زیادہ توجہ کا مرکز ایک طاق میں بیٹھے دو ایرانی نوجوان تھے جو ریستوران کی ہر چیز اور وہاں بیٹھے تمام مردوزن سے لاپروا خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ گاہے بگاہے ان کے پرجوش قہقہے بھی فضا میں گونج اٹھتے۔ مجھے یہ دونوں حضرات بڑے اچھے لگے اور چاہا کہ انہیں اپنے کیمرے میں محفوظ کرلوں۔ ایسا کرنے کے لئے کیمرہ براہ راست ان پر مرکوز کرنا ہوتا اور بغیر اجازت ایسا کرنا غیر اخلاقی بات تھی۔ سو میں ان کے پاس جا پہنچا۔ السلام علیکم کہا اور اپنا مختصر تعارف کرایا۔ انہوں نے نہایت خوش اخلاقی سے میرے سلام کا جواب دیا اور اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میں ایک پاکستانی ہوں اور ان کا پڑوسی بھائی ہوں۔ میں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے مزید عرض کیا کہ دراصل میں نے آپ کی نجی نشست میں مخل ہونے کی جرأت اس لئے کی ہے کہ میں آپ دونوں صاحبان کی ایک تصویر اتارنا چاہتا تھا کہ وہ میرے اس ایران کے دورے کی چند خوشگوار یادگاروں میں سے ایک یادگار بن جائے۔ انہوں نے مجھے اس کی بخوشی اجازت دیدی۔ مگر ساتھ ہی کہا کہ تم بڑی شیریں فارسی بولتے ہو، برائے مہربانی ہماری تصویر بنا کر ہمارے پاس ہی آجاؤ، اچھی صحبت رہے گی۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ میری فارسی کی تعریف کا شکریہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر میں یہاں آگیا تو میری یہ شیریں فارسی تھوڑی ہی دیر میں ختم ہوجائی گی اور پھر میں آپ لوگوں پر بار خاطر ہوجاؤں گا۔ اس پر ان دونوں نے مل کر فلک شگاف قہقہ لگایا اور پھر بولے کہ اگر ایسا ہے تو پھر تمہاری مرضی، ویسے تمہاری صحبت میں بیٹھ کر اور تم سے خیالات کا تبادلہ کرکے ہمیں بڑی خوشی ہوتی۔ میں ان کا شکریہ ادا کرکے واپس اپنی میز پر آگیا اور پھر اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے ان کو بلا ’ریڈی‘ کہے چپ چاپ ان کی ایک تصویر اتار لی۔ اتفاق سے اس تصویر میں برابر والے طاق میں بیٹھی ایک پردہ دار خاتون بھی آگئیں جن کا تصویر میں آنا مجھے فلم کی پرنٹنگ کے بعد ہی معلوم ہوا، کیونکہ فوٹو لیتے وقت میری ساری توجہ ان دونوں جوانوں پر ہی مرکوز تھی۔ (جاری ہے)