سرفروش

عباس ثاقب
میں جیسے جیسے غور کرتا گیا، یہ یقین پختہ ہوتا گیا کہ میں اس سڑک پر چلتے ہوئے بکرم جیت سنگھ کی حویلی پہنچ سکتا ہوں۔ لیکن ساتھ ہی ذہنی کشمکش نے مجھے گھیر لیا، کہ فی الحال بکرم سنگھ کو فراموش کر کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں سے جان بچاکر فرار ہوجاؤں، یا مزید خطرہ مول لے کر حویلی میں پوشیدہ دستاویزات حاصل کرنے کی کوشش کروں۔ میرا اندازہ تھا کہ یہ سڑک آگے جاکر تنگوالی کے قریب نکلے گی، جہاں سے ایک شاہراہ دلّی کی طرف جاتی ہے۔ اگر میں بغیر کسی رکاوٹ کے گاڑی دوڑاتا رہوں تو صبح ہونے تک ہریانہ کی حدود میں داخل ہو جاؤں گا۔ وہاں سے دلّی پہنچنے کے لیے باآسانی سواری مل جائے گی۔
لیکن میرے ذہن میں یہ سوال بھی کچوکے دے رہا تھا کہ میرے خالی ہاتھ دلّی پہنچنے کا کیا فائدہ؟ جان کی بازی لگاکر تیارکی گئی ان دستاویزات کے بغیر تو میری ساری جدوجہد رائیگاں چلی جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس علاقے میں موجودگی کا ہر لمحہ میرے لیے خطرات بڑھا رہا ہے، اور خصوصاً بکرم جیت سنگھ کی حویلی کا رخ کرنا تو خود کو جانتے بوجھتے موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ لیکن اگر اپنی جان خطرے میں ڈال کر میں کسی طرح وہ نقشے حاصل کرلوں اور پھر انہیں دلّی میں مقررہ شخص تک پہنچانے میں کامیاب ہوجاؤں تو میری یہاں آمدکا مقصد کسی نہ کسی حد تک تو حاصل ہو جائے گا۔ اس کے بعد میں پکڑا جاؤں یا مارا جاؤں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مجھے قسمت آزمائی کا فیصلہ کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ میرا ذہن کچی سڑک پر دوڑتی جیپ سے زیادہ تیزی سے سوچ رہا تھا۔ بندوق کا بٹ کھوپڑی پر کھانے والے سورن سنگھ کا تو کئی گھنٹوں تک ہوش و حواس میں واپس آنا مشکل ہے۔ لیکن یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ خود بکرم سنگھ کی گدی پر پڑنے والا گھونسا اسے کتنی دیر بے سدھ رکھے گا۔ بالفرض وہ اب تک ہوش میں آچکا ہو تو کیا اس قابل ہوگا کہ اندھیری اور سرد رات میں ایک میل کے لگ بھگ فاصلہ طے کر کے اپنی حویلی تک پہنچ سکے۔ مہندر سنگھ کی گاڑی تو اس کے کسی کام نہیں آ سکتی۔ کیونکہ اول تو اس کی چابی میرے پاس ہے۔ دوسرے اگر چابی گاڑی میں لگی ہوئی بھی ہوتی تو بے ڈھنگے انداز میں پھنسی گاڑی کو سیدھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
مجھے بکرم سنگھ کی طرف سے مداخلت کا خدشہ کچھ زیادہ طاقت ور نہیں لگا۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ حویلی والے غفلت کی حالت میں قابو نہیں آئیں گے۔ پریتو بھابھی اپنے مسلح کارندوں سمیت بے قراری سے اپنے شوہر کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوگی اور ساتھ ہی شاید اسے یہ توقع بھی ہو کہ بکرم جیت سنگھ گولیوں سے چھلنی میری لاش بھی ساتھ لے کر آئے گا۔
کچی سڑک پر لگ بھگ نصف میل کا فاصلہ خاصی تیز رفتاری سے طے کرنے کے بعد جیپ سڑکوں کے ایک دو شاخے پر پہنچی۔ میں نے بلا تردد جیپ بائیں طرف جانے والی کچی سڑک پر موڑ دی۔ راستے میں خاصی دھول مٹی اڑتی رہی، لیکن جیپ کے لیے یہ کچی سڑک کوئی بڑی آزمائش نہ بنی۔ مجھے لگ بھگ ایک فرلانگ پہلے ہی بکرم سنگھ کی بلند و بالا حویلی کی جھلک نظر آگئی۔ وہ کچی سڑک اس کے دائیں پہلو سے ہوکر گزرتی تھی۔ مزید سو گز کے قریب آگے بڑھنے پر میں نے جیپ کی ہیڈ لائٹس بند کر دیں اور اسے سست رفتاری سے آگے بڑھانے لگا۔ حویلی سے لگ بھگ ساٹھ گز پہلے سڑک سے اتار کر میں نے جیپ ایک گھنے درخت تلے روک دی۔
سترہویں یا اٹھارہویں شب کے چاند کی روشنی میں مجھے حویلی کا کھلا پھاٹک خاصا واضح دکھائی دیا۔ پھاٹک کے اوپر بنی چوکی میں نظر آنے والی غالباً لالٹین کی روشنی بتا رہی تھی کہ وہاں مسلح پہرے دار پوری طرح بیدار ہے۔ چند ہی لمحوں کے جائزے سے مجھ پر واضح ہوگیا کہ پھاٹک کے ذریعے حویلی میں داخلے کی کوشش سیدھی سیدھی خودکشی ہوگی۔ میںکھلی چاندنی میں فوراً ہی مسلح پہرے دارکی نظروں میں آجاؤں گا اور وہ مجھے بلا ترد گولی سے اڑا دے گا۔
توکیا میں حویلی کے پچھلے حصے کی طرف سے قسمت آزمائی کروں۔ جہاں سے میں ظہیر کے ہمراہ فرار ہوا تھا؟ لیکن حویلی میں تمام لوگ جاگ رہے ہیں اور گوشے گوشے میں روشنی کا بندوبست ہوگا۔ لہذا ایسی کوئی کوشش بھی مجھے باآسانی نظروں میں لاسکتی ہے۔ یعنی ہر دو طرح حویلی میں داخلے کی کوشش خطرے سے خالی نہیں ہے۔
تبھی میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میں بکرم سنگھ کے حشر سے ان لوگوں کی بے خبری سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں۔ اس کے بعد مجھے لائحہ عمل مرتب کرنے میں صرف چند لمحے لگے۔ سب کچھ اندازوں پر مبنی تھا اور ناکامی کی صورت میں جان بچانا مشکل ہوجاتا۔ لیکن مجھے لگا کہ اس وقت اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے۔
میں نے جیپ ریورس کر کے دوبارہ سڑک پر چڑھائی اور پچیس تیس گز پیچھے لے گیا اور پھر ہیڈ لائٹس روشن کرکے آگے بڑھنے لگا۔ حویلی قریب آنے پر میں نے جیپ پھاٹک کی طرف جانے والی پگڈنڈی پر اتار دی اور درمیانی رفتار سے آگے بڑھانے لگا، تاکہ پہرے دارجیپ کو اچھی طرح دیکھ اور پہچان لے اور اسے اپنے مالک کی آمد کوئی ہنگامی معاملہ نہ لگے۔ ساتھ ہی میں یہ بھی چاہتا تھا کہ جیپ کے پھاٹک پر پہنچنے تک پہرے دار چوکی سے اترکر نیچے آ جائے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment