امت رپورٹ
قبائلی اضلاع جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان سے قومی اسمبلی کی نشستوں سے کامیاب ہونے والے پی ٹی ایم (پشتون تحفظ مومنٹ) کے بانی اراکین کو تحریک انصاف میں شمولیت کی دعوت پر مقتدر حلقے خوش نہیں ہیں۔ ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے والوں کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا تو مستقبل میں تحریک انصاف کی حکومت اور مقتدر اداروں میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے علاوہ علی وزیر اور محسن داوڑ سے کسی بھی سیاسی جماعت نے رابطہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ عوامی نیشنل پارٹی نے بھی ان سے رابطہ نہیں کیا، جس کے ساتھ دونوں پی ٹی ایم ارکان کی پرانی وابستگی رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے علی وزیر اور محسن داوڑ کو گو کہ پشتون تحفظ موومنٹ کی کور کمیٹی سے نکالا جا چکا ہے، لیکن اب بھی دونوں سے پی ٹی ایم کے رہنما رابطہ رکھے ہوئے ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق پچیس جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں جہاں اہم سیاسی جماعتوں کے رہنما پی ٹی آئی کے امیدواروں سے ہار گئے، وہیں خیبرپختون میں ضم ہونے والے قبائلی علاقوں سے چند مہینے قبل اٹھنے والی پشتون تحفظ مومنٹ (پی ٹی ایم) کے دو بانی ارکان کامیاب رہے۔ پی ٹی ایم کے تین بانی اراکین نے شمالی وزیرستان، جنوبی وزیرستان اور ایف آر علاقے سے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ جس میں پی ٹی ایم کے دو ارکان علی وزیر جنوبی وزیرستان سے، جبکہ محسن داوڑ شمالی وزیرستان سے بھاری اکثریت سے جیت گئے۔ دونوں کا تعلق ماضی میں اے این پی سے رہا ہے۔ علی وزیر محسن داوڑ پی ٹی ایم بننے کے بعد اس کے سب سے متنازعہ رہنمائوں کے طور پر ابھرے۔ ریاستی اداروں کے خلاف ان کی تقاریر تمام قومی حلقوں اور عوام میں سخت ناپسند کی گئی۔ تاہم ان کی کامیابی پر نہ صرف علاقے میں حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے، بلکہ خود پی ٹی ایم کے اندر بھی شکوک و شبہات بڑھ رہے ہیں کہ ریاستی اداروں کے خلاف کھل کر تقاریر اور نعرہ بازی کے باوجود علی وزیر اور محسن داوڑ کس طرح جیت گئے۔ واضح رہے کہ ان دونوں کو پی ٹی آئی نے شمولیت کی دعوت دی ہے، جبکہ انہوں نے شمولیت کا اختیار پی ٹی ایم کو دے دیا ہے۔ یاد رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ علی وزیر اور محسن داوڑ کو اپنی کور کمیٹی سے نکال چکی ہے۔ تاہم معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ دونوں سے پی ٹی ایم کے رہنمائوں کا ابھی بھی رابطہ ہے۔ ان کی شمولیت کا مسئلہ ایک طرف پی ٹی ایم کے گلے پڑ گیا ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی کے بھی گلے پڑ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق ریاستی اداروں کے مخالف افراد کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی دعوت دینے سے پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں کے درمیان کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے اور عوام بھی تحریک انصاف سے متنفر ہو سکتے ہیں کہ پی ٹی آئی اقتدار کیلئے ہر کسی سے ہاتھ ملانے کیلئے تیار ہے۔ دوسری جانب علی وزیر اور محسن داوڑ کا بنیادی طور پر اے این پی سے تعلق رہا ہے، لیکن اس کے باوجود اے این پی نے بھی دونوں سے کوئی رابطہ کیا ہے نہ پارٹی میں شامل ہونے کیلئے دعوت دی گئی۔ باچاخان مرکز کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اے این پی اپنے اصولوں پر قائم ہے۔ اسی لئے اے این پی نے آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے پی ٹی ایم کے دونوں امیدواروں کو دعوت نہیں دی۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کے قوانین کے مطابق علی وزیر اور محسن داوڑ کو کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا پڑے گی۔ اگر وہ اپنے پرانے موقف پر قائم رہتے ہیں اور پارلیمنٹ میں ریاستی اداروں کے خلاف تقاریر کرتے ہیں تو انہیں ماضی کی طرح بین الاقوامی میڈیا میں پذیرائی حاصل ہو سکتی ہے، جو ان کے حلف کے بھی خلاف ہو گا۔ جبکہ جس پارٹی میں وہ شمولیت اختیار کریں گے، ان کے لئے بھی مسائل پیدا کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اپنا مشن پورا کرنے کیلئے محسن داوڑ اور علی وزیر کو پی ٹی آئی میں شمولیت کی ضرورت ہے۔ جبکہ تحریک انصاف کے وہ امیدوار جو پانچ سے دو تک نشستوں پر کامیاب ہوئے، انہیں اپنی دیگر نشستیں چھوڑنا پڑیں گی۔ ایسی صورت میں پی ٹی آئی کیلئے ہر آزاد امیدوار اہمیت کا حامل ہے۔ اسی لئے تحریک انصاف کی جانب سے علی وزیر اور محسن داوڑ کو پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ دوسری جانب اگر پی ٹی ایم کے رہنما اے این پی میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں اور ضمنی انتخابات ہونے پر اپوزیشن تھریک انصاف سے دو سے تین نشستیں لینے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو متحدہ اپوزیشن کی تعداد بڑھ جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ علی وزیر اور محسن دوڑ کے حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ کیونکہ محسن داوڑ اور علی وزیر نے پی ٹی آئی کے رابطہ کرنے والے رہنمائوں سے کہا ہے کہ وہ منظور پشتین سے ان کی شمولیت کے حوالے سے بات کریں۔ اگر پی ٹی ایم کے بانی اراکین پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لیتے ہیں تو یہ پی ٹی آئی کی ساکھ کو تباہ کرنے کے مترادف ہوگا۔ پی ٹی آئی اور مقتدر حلقوں کے درمیان محاذ آرائی بھی خارج از امکان نہیں۔٭