امت رپورٹ
تحریک انصاف کی نئی حکومت میں کن پارٹی رہنمائوں کو کس وزارت کا قلمدان یا عہدہ ملتا ہے، جلد ہی یہ اسرار ختم ہونے والا ہے۔ منگل کی شام ان سطور کے لکھے جانے تک بنی گالہ میں عمران خان کی زیر صدارت اہم اجلاس جاری تھا۔ تحریک انصاف کے اندرونی ذرائع کے مطابق وزارتوں اور عہدوں کے حوالے سے ظاہر ہے کہ حتمی فیصلہ پارٹی چیئرمین نے کرنا ہے۔ لیکن دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ متعدد پارٹی رہنمائوں نے اپنے طور پر بہت سی خواہشات دل میں پال رکھی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بعض کو اپنی خواہشات دل میں ہی رہ جانے کا ادراک ہے، اس کے باوجود وہ اپنی ان خواہشات کی تکمیل کے لئے اندرون خانہ لابنگ میں مصروف ہیں۔
ذرائع کے مطابق عمران خان کے دست راست اور دیرینہ ساتھی نعیم الحق کی خواہش ہے کہ انہیں سندھ کا گورنر بنایا جائے۔ اس سلسلے میں وہ پارٹی کے اندر بھرپور لابنگ میں مصروف ہیں۔ نعیم الحق کا موقف ہے کہ وہ کراچی میں پلے بڑھے ہیں اور وہاں کے معاملات سے بخوبی واقف ہیں، لہٰذا بطور گورنر سندھ، پارٹی میں ان سے موزوں کوئی شخصیت نہیں۔ نعیم الحق کبھی اصغر خان کی تحریک استقلال میں ہوا کرتے تھے۔ کرکٹ کے زمانے سے عمران خان کے دوست ہیں۔ اہلیہ عرصہ ہوا انتقال کر چکیں۔ تمام بچے شادی شدہ ہیں، چنانچہ فارغ البال ہیں۔ کافی عرصے سے اسلام آباد میں چھڑے کے طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اسی طرح گزشتہ برس تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے معروف وکیل بابر اعوان چاہتے ہیں کہ انہیں گورنر پنجاب بنا دیا جائے۔ بابر اعوان نے پیپلز پارٹی سے اپنی 21 سالہ رفاقت ختم کر کے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا۔ ذرائع کے بقول عمران خان کے مختلف کیسوں کی پیروی کے سبب وہ بہت کم عرصے میں چیئرمین کے نزدیک آ گئے ہیں۔ لیکن پنجاب کی گورنری کے حوالے سے بابر اعوان کی امید بر آنے کے زیادہ امکانات نہیں۔ تاہم بابر اعوان نے بھی خواہش کی تکمیل کے لئے لابنگ کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
پی ٹی آئی ذرائع نے بتایا کہ سب سے دلچسپ معاملہ شیخ رشید کا ہے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کے لئے اگرچہ پارٹی کے اندر زیادہ پسندیدگی نہیں پائی جاتی، تاہم انہیں اب بھی چیئرمین عمران خان کا اعتماد حاصل ہے۔ ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ راولپنڈی کی مقامی پارٹی قیادت کی تمام تر مخالفت کے باوجود عمران خان نے قومی اسمبلی کے دو حلقوں میں شیخ رشید کے سامنے پی ٹی آئی امیدواروں کو کھڑا نہیں کیا تھا۔ شیخ رشید پر پارٹی چیئرمین آج بھی پوری طرح مہربان ہیں اور انہیں وفاقی وزارت ریلوے کا قلمدان سونپنا چاہتے ہیں۔ تاہم ذرائع کے بقول شیخ رشید کی شدید خواہش ہے کہ انہیں وفاقی وزیر داخلہ بنایا جائے۔ واضح رہے کہ کسی بھی حکومت میں وزیر اعظم کے بعد سب سے تگڑی وزارت داخلہ کی ہوتی ہے۔ شیخ رشید پہلے بھی وفاقی وزیر ریلوے رہ چکے ہیں۔ تاہم اب اپنے قریبی حلقوں میں وہ یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ریلوے انجنوں میں دوبارہ اپنی انرجی کھپانے کے حق میں نہیں اور یہ کہ وزارت داخلہ ان کے مزاج کے مطابق انہیں سوٹ کرتی ہے۔ تاہم ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کے بااثر اور شیخ رشید مخالف رہنما ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دیں گے، اور زیادہ امکانات یہی ہیں کہ انہیں اس سے کم اہمیت کی وزارت پر قناعت کرنا پڑے۔
چیئرمین تحریک انصاف کے لئے اس وقت سب سے اہم مسئلہ شاہ محمود قریشی کی خواہشات پوری کرنے کا ہے۔ اگرچہ میڈیا میں شاہ محمود قریشی کئی بار ان خبروں کی تردید کر چکے ہیں کہ وہ کسی خاص وزارت یا منصب کے خواہش مند نہیں اور یہ کہ عمران خان ان کے بارے میں جو فیصلہ بھی کریں گے، انہیں قبول ہو گا۔ تاہم پارٹی ذرائع کے بقول اصل حقائق اس کے برعکس ہیں۔ شاہ محمود قریشی ہر صورت وزیر اعلیٰ پنجاب بننا چاہتے ہیں اور اس کے لئے کسی بھی حد تک جانے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزارت اعلیٰ پنجاب کی تمنا انہوں نے الیکشن سے پہلے ہی دل میں پال لی تھی۔ اور اس خواہش کو مد نظر رکھ کر ہی قومی اسمبلی کی دو نشستوں کے علاوہ صوبائی سیٹ پر بھی الیکشن لڑا تھا۔ تاہم بد قسمتی سے وہ صوبائی الیکشن ہار گئے۔ لیکن اب بھی انہوں نے ہمت نہیں ہاری ہے اور صوبائی سیٹ پر ضمنی الیکشن لڑ کر دوبارہ کامیاب ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اپنے قریبی حلقوں میں شاہ محمود قریشی کا موقف ہے کہ انہیں صوبائی نشست پر ہرانے کے لئے مخالف جہانگیر ترین گروپ نے سازش کی، تاکہ وزارت اعلیٰ کے حصول سے متعلق ان کے پلان کو ناکام بنایا جا سکے۔ ذرائع کے بقول پارٹی کے کئی رہنما شاہ محمود قریشی کے پیپلز پارٹی کے ساتھ اندرون خانہ رابطوں کی رپورٹ چیئرمین کو دے چکے ہیں۔ ان رہنمائوں کو یہ خدشات بھی ہیں کہ شاہ محمود قریشی اپنی خواہش پوری نہ ہونے کی صورت میں اپنے گروپ سے تعلق رکھنے والے ارکان صوبائی اسمبلی کا فارورڈ بلاک بنا سکتے ہیں۔ یہ صورت حال، جب پنجاب حکومت بنانے کے لئے پی ٹی آئی پہلے ہی نمبر گیم میں الجھی ہوئی ہے، پارٹی کے لئے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ لہٰذا شاہ محمود قریشی کو رام کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور یہ لولی پاپ بھی دیا جا رہا ہے کہ صوبائی نشست پر دوبارہ الیکشن لڑا کر ان کی خواہش پوری کر دی جائے گی۔ اس کے لئے عارضی طور پر کسی دوسرے رہنما کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم پارٹی کے سینئر رہنمائوں کا موقف ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے دو بار اعتماد کا ووٹ لینا رسکی ہو سکتا ہے، لہٰذا اس قسم کی تجویز پر غور بھی نہیں کیا جانا چاہئے۔ واضح رہے کہ میڈیا میں نئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے حوالے سے فواد چوہدری اور جہانگیر ترین کے قریبی ساتھی عبدالعلیم خان کا نام بھی زیر گردش ہے اور یہ کہ سابقہ تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو وزارت خارجہ دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔ لیکن وہ اس پر آمادہ نہیں۔ ذرائع کے مطابق نیب میں تازہ طلبی نے علیم خان کو دھچکا پہنچایا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی ان کے خلاف اس نوعیت کی خبریں چل رہی ہیں کہ کرپشن میں ملوث نیب زدہ شخص کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانا پی ٹی آئی کی ساکھ کو نقصان پہنچائے گا۔ ذرائع کے بقول علیم خان کا خیال ہے کہ میڈیا میں ان کے خلاف یہ مہم ایک سازش کے طور پر چلائی جا رہی ہے اور اس میں پارٹی کے چند وہ لوگ ملوث ہیں، جو انہیں اس منصب پر نہیں دیکھنا چاہتے۔
پی ٹی آئی ذرائع کا کہنا ہے کہ مختلف وزارتوں کے حوالے سے جو متعدد نام زیر گردش ہیں، ان میں سوائے ایک اسد عمر کے فی الحال کسی کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ سب اس حوالے سے اپنی خواہشات ضرور رکھتے ہیں۔ اس وقت صرف ایک اسد عمر ہیں۔ جنہیں عمران خان، وفاقی وزیر خزانہ بنانے کے حق میں ہیں۔ چیئرمین کے خیال میں وہ اس وزارت کے لئے موزوں ہیں۔ سابقہ خیبر پختون حکومت کی مالی پالیسیوں میں بھی ان سے مشورے لئے جاتے رہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق مختلف وزارتوں کے حصول کے لئے صرف پارٹی رہنمائوں نے اپنے دل میں خواہشات نہیں پال رکھی، بلکہ جن پارٹیوں کو تحریک انصاف نے اپنا اتحادی بنایا ہے یا اتحادی بنانے جا رہی ہے، انہوں نے بھی کئی اہم وزارتوں اور عہدوں پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں وزارت اعلیٰ پنجاب یا نائب وزیر اعظم کے طور پر چوہدری پرویز الٰہی کا نام میڈیا میں زیر گردش ہے۔ تاہم پارٹی کے اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی رہنمائوں کی اکثریت پارٹی کے کسی رہنما کو ہی وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر دیکھنا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے چوہدری برادران کو آگاہ بھی کر دیا گیا ہے اور انہوں نے اس مطالبے پر کچھ لچک دکھائی ہے۔ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی رہنمائوں کی بڑی تعداد نائب وزیر اعظم سے متعلق قاف لیگ کی خواہش سے بھی متفق نہیں اور پارٹی چیئرمین سے ان کا کہنا ہے کہ ڈپٹی پرائم منسٹر کا عہدہ غیر آئینی ہے، جسے اپنی ضرورت کے تحت پیپلز پارٹی نے تخلیق کیا تھا۔ اگرچہ پی ٹی آئی کو بھی اس وقت اسی صورت حال کا سامنا ہے، لیکن اس سلسلے میں پیپلز پارٹی کی پیروی اچھی مثال نہیں ہوگی۔ ذرائع کے مطابق جہانگیر ترین کی کراچی آمد پر ایم کیو ایم پاکستان نے اگرچہ آفیشلی پی ٹی آئی کے ساتھ چلنے کا اعلان نہیں کیا، تاہم ممکنہ طور پر وہ جلد ہی پی ٹی آئی کی کشتی میں سوار ہو جائے گی۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم پاکستان اس سپورٹ کے عوض دیگر مراعات کے علاوہ اپنے سینیٹر فروغ نسیم کے لئے وفاقی وزارت قانون کا قلمدان حاصل کرنے کی خواہشمند ہے۔
٭٭٭٭٭