ایک مرتبہ مسئلہ قادیانیت کے سلسلے میں مولانا انور شاہ کشمیریؒ لاہور دیوبند سے تشریف لائے، آپ کے ساتھ حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اور مولانا مفتی محمد شفیعؒ بھی تھے۔ اس زمانے میں مہر اور سالک پنجاب کے دو مشہور صحافی اور اہل علم جانے جاتے تھے، ان حضرات نے حضرت شاہ صاحبؒ اور حضرت علامہ عثمانیؒ کی تشریف آوری پر اخبارات میں یہ سرخی لگائی۔
’’لاہور میں علم و عرفان کی بارش۔‘‘ پھر ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔
گفتگو کے دوران سود کا مسئلہ چل نکلا، سالک مرحوم نے حضرت علامہ عثمانیؒ سے یہ سوال کیا:
’’موجودہ بینک منافع کو سود قرار دینے کی کیا وجہ ہے؟‘‘
علامہ عثمانیؒ نے انہیں جواب دیا، مگر انہوں نے پھر کوئی سوال کر دیا۔ اس طرح جواب کا یہ سلسلہ جاری رہا، علامہ عثمانی ہر بار مکمل جواب دیتے، مگر وہ ہر بار کوئی اعتراض کردیتے، دراصل وہ اپنی گفتگو میں ان لوگوں کی وکالت کررہے تھے، جو یہ کہتے تھے کہ بینکوں کے سود کو علما جائز
قرار دے دیں تو شاید یہ مسلمانوں کے حق میں بہتر ہوگا۔
مولانا انور شاہ کشمیریؒ بھی مجلس میں تشریف فرما تھے اور ساری بات چیت غور سے سن رہے تھے، آپ کی عادت یہ تھی کہ شدید ضرورت کے بغیر نہیں بولتے تھے، نہ اپنی علمی حیثیت جتاتے تھے، اس لیے علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی گفتگو کو کافی سمجھ کر خاموشی بیٹھے تھے، لیکن جب گفتگو بہت ہی طویل ہوگئی تو اس وقت حضرت نے مداخلت کی اور بے تکلفی سے فرمایا:
’’دیکھ بھائی سالک، تم ہو سالک، میں ہوں مجذوب۔ میری بات کا برا نہ ماننا… بات یہ ہے کہ حق تعالیٰ کا بنایا ہوا جہنم بہت وسیع ہے… اگر کسی شخص کو اس میں جانے کا ارادہ ہو تو اس میں کوئی تنگی نہیں… ہم اسے روکنے والے کون ہیں… ہاں البتہ اگر کوئی شخص ہماری گردن پر پاؤں رکھ کر جہنم میں جانا چاہے تو ہم اس کی ٹانگ پکڑ لیں گے۔‘‘
مولانا انور شاہ کشمیریؒ ایک روز مسجد میں بیٹھے تھے، کسی نے آکر بتایا: ’’حضرت! آپ کے کمرے کی چھت گر گئی ہے۔‘‘
خبر سنانے والے نے ایسے انداز میں خبر سنائی تھی کہ اسے اندازہ تھا شاہ صاحب زور سے اچھل پڑیں گے، لیکن شاہ صاحب اطمینان سے بیٹھے رہے، پھر اطمینان سے فرمایا:
’’تو بھائی میں کیا کروں، جا کر مولانا حبیب صاحب (مہتمم دارالعلوم) سے کہو۔‘‘
چنانچہ حضرت مولانا حبیب صاحب کو اطلاع دی گئی اور انہوں نے کمرے کی مرمت کرائی۔
٭٭٭٭٭