کچھ لوگوں نے سیدہ رابعہ بصریہؒ کی آزمائش کی غرض سے کہا کہ خدا نے فضائل مردوں کو بہت دیئے ہیں اور مردوں میں انبیاء بھی بہت ہوئے۔ کبھی کسی عورت کو مرتبہ نبوت نہیں ملا۔ آپ کو رتبہ ولایت نہیں مل سکتا، پھر بناوٹ کرنے سے کیا فائدہ؟ آپ نے کہا تمہارا قول درست ہے، لیکن یہ بتاؤ کہ دنیا میں آج تک کسی عورت نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا ہے یا کوئی عورت بھی مخنث ہوئی ہے، حالانکہ ہزاروں مرد مخنث ہوئے ہیں۔
ایک بار آپؒ علیل ہوئیں، لوگوں نے علالت کا سبب پوچھا، آپ نے کہا میرے دل کو بہشت کی طرف توجہ ہوئی تو حق تعالیٰ مجھ پر خفا ہوا، اس کا عتاب میری علالت کا باعث ہے۔ حضرت حسن بصریؒ، حضرت مالک بن دینارؒ اور حضرت شفیق بلخیؒ حضرت رابعہ بصریہؒ کے ہاں تھے اور صدق کی بابت آپس میں تذکرہ ہو رہا تھا۔ حضرت حسن بصریؒ نے کہا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں ہے، جسے اس کا مالک مارے اور وہ صبر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا اس قول سے خودی کی بو آتی ہے، پھر حضرت شفیق بلخیؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں، جسے اس کا مالک مارے اور وہ شکر نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے فرمایا اس سے بہتر تعریف صادق کی ہونی چاہئے۔ پھر حضرت مالک بن دینارؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں، جسے اس کا مالک مارے اور وہ اس سے لذت حاصل نہ کرے۔ حضرت رابعہؒ نے پھر یہی فرمایا کہ اس سے بہتر تعریف صادق کی ہونی چاہئے۔ ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ ہم لوگ اپنے اپنے نزدیک تعریف کر چکے۔ اب آپ بھی کچھ فرمائیں۔ حضرت رابعہ بصریؒ نے فرمایا وہ شخص اپنے دعوے میں صادق نہیں، جس کو اپنے مولا کا دیدار حاصل ہو اور وہ اپنے زخم کی تکلیف کو بھول جائے۔
کوئی شخص مشاہدئہ الٰہی میں اپنے زخم کی تکلیف کو بھول جائے تو ہرگز تعجب کی بات نہیں ہے، اس لئے کہ مصر کی عورتوں نے جمال حضرت یوسفؑ کو دیکھ کر اپنی انگلیاں کاٹ ڈالی تھیں اور ان کو اس کی تکلیف ذرا بھی معلوم نہ ہوئی۔
شیوخ بصرہ میں سے ایک بزرگ حضرت رابعہؒ کے پاس تشریف لائے اور بیٹھ کر دنیا کی مذمت کرنے لگے۔ حضرت رابعہؒ نے کہا معلوم ہوا کہ تمہیں دنیا سے بہت محبت ہے، کیونکہ اگر تمہیں دنیا کی محبت نہ ہوتی تو ہرگز اس کا ذکر نہ کرتے۔ قاعدہ ہے کہ جو شخص جس چیز کو دوست رکھتا ہے، اسی کا ذکر کیا کرتا ہے۔
سیدہ رابعہؒ شام سے عبادت الٰہی کو کھڑی ہوتی اور صبح کر دیتی تھیں۔ فرمایا کہ ہم خدا کا شکر کس طرح ادا کریں کہ اس نے ہمیں عبادت کرنے کی توفیق دی، پھر فرمایا میں اس کے شکر میں کل روزہ رکھوں گی۔ آپ مناجات میں کہتی تھیں اگر قیامت کے دن مجھے دوزخ میں بھیجے گا تو میں تیرا ایسا بھید ظاہر کردوں گی جس کی وجہ سے دوزخ مجھ سے ہزار برس کی راہ پر بھاگ جائے گی اور فرماتیں تو نے دنیا میں جو حصہ میرے لئے مقرر کیا ہے اپنے دشمنوں کو دیدے اور جو حصہ عقبیٰ میں میرے لئے رکھا ہے وہ اپنے دوستوں میں بانٹ دے، کیونکہ میرے لئے تو ہی کافی ہے اور فرمایا میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کروں تو تو مجھے دوزخ میں جلا اور اگرجنت کی آرزو کی وجہ سے عبادت کروں تو جنت مجھ پر حرام کر اور اگر تجھ کو تجھ سے چاہوں تو اپنا جمال مجھے نصیب کر اور فرمایا خدا اگر مجھے دوزخ میں بھیجے گا میں فریاد کروں گی کہ میں تجھے دوست رکھا، دوست دوست کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرتا۔ غیب سے آواز آئی اے رابعہؒ تو ہم سے بدگمان نہ ہو، ہم تجھے اپنے دوستوں کے قرب میں جگہ دیں گے، تاکہ تو ہم سے بات کر سکے اور فرمایا خدا میرا کام اور میری آرزو دنیا میں تیری یاد ہے اور آخرت میں تیرا دیدار، آگے تو مالک ہے جو چاہے کر۔
ایک شب کو عبادت کرتے وقت آپ نے فرمایا: خدایا میرے دل کو حاضر کر یا میری بے دلی کی عبادت کو قبول کرلے۔ جب آپ کی وفات کا زمانہ قریب ہوا جو مشائخ آپ کے قریب تھے، ان سے آپ نے فرمایا تم لوگ اٹھ جاؤ اور فرشتوں کے واسطے جگہ خالی کر دو، سب باہر چلے آئے اور دروازہ بند کر دیا گیا، ایک آواز سب لوگوں نے سنی، وہ آواز یہ تھی ’’اے نفس مطمنئہ اپنے پروردگار کی طرف رجوع کر۔‘‘ (القرآن) اس کے بعد دیر تک کوئی آواز نہ آئی۔ لوگ اندر گئے، دیکھا کہ آپ کا وصال حق ہو چکا ہے۔ آپ نے اس دنیائے بے بقا سے کوچ فرمایا۔ کسی نے آپ کو خواب میں دیکھا، پوچھا منکر نکیر سے کیا معاملہ ہوا؟ آپ نے جواب دیا: جب منکرین آئے اور مجھ سے انہوں نے پوچھا تیرا رب کون ہے؟ میں نے کہا کہ پلٹ جاؤ اور خدا سے کہو کہ جب تو نے ایک عورت کو باوجود اس کے کہ تجھے تمام مخلوق کا خیال تھا، کبھی فراموش نہ کیا، پھر وہ کیونکر تجھے بھول جاتی۔ حالانکہ دنیا میں بھی اسے تیرے سوا کسی سے علاقہ نہ تھا، کیوں فرشتوں کے ذریعے اس سے سوال کرتا ہے۔ (بحوالہ تذکرہ رابعہ بصریہؒ)
٭٭٭٭٭