خلاصۂ تفسیر
(فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ ایسے طاغی، باغی اور غالی ہیں) تو (ان سے توقع ایمان کر کے رنج میں نہ پڑیئے بلکہ) ان کو (انہی کی حالت پر) رہنے دیجئے یہاں تک کہ ان کو اپنے اس دن سے سابقہ (واقع) ہو جس میں ان کے ہوش اڑ جاویں گے (مراد قیامت کا دن ہے اور اس صعق کی تفصیل سورئہ زمر کی آخری آیت ونفخ الخ کی تفسیر میں گزری ہے اور معنی ’’حتیٰ‘‘ کی تحقیق سورئہ زخرف کے آخر میں جہاں ’’حتی یلاقوا‘‘ آیا ہے گزری ہے، آگے اس دن کا بیان ہے یعنی) جس دن ان کی تدبیریں (جو دنیا میں اسلام کی مخالفت اور اپنی کامیابی کے بارے میں کیا کرتے تھے) ان کے کچھ بھی کام نہ آویں گی اور نہ (کہیں سے) ان کو مدد ملے گی (نہ تو مخلوق کی طرف سے کہ اس کا امکان ہی نہیں اور نہ خالق کی طرف سے کہ اس کا وقوع نہیں، یعنی اس روز ان کو حقیقت معلوم ہو جاوے گی، باقی اس سے ادھر ایمان لانے والے نہیں) اور (آخرت میں تو یہ مصیبت ان پر آوے ہی گی لیکن) ان ظالموں کے لئے قبل اس (عذاب) کے بھی عذاب ہونے والا ہے (یعنی دنیا میں جیسے قحط اور غزوئہ بدر میں قتل ہونا) لیکن ان میں اکثر کو معلوم نہیں (اکثر شاید اس لئے فرمایا ہو کہ بعضوں کے لئے ایمان مقدر تھا اور ان کا عدم علم بوجہ اس کے کہ علم سے مبدل ہونے والا تھا، اس لئے وہ عدم علم نہیں قرار دیا گیا) اور (جب آپ کو معلوم ہوگیا کہ ہم ان کی سزا کے لئے ایک وقت معین کر چکے ہیں تو) آپ اپنے رب کی (اس) تجویز پر صبر سے بیٹھے رہئے (اور ان لوگوں کیلئے انتقام الٰہی کی جلدی نہ کیجئے، جس کو آپ مسلمانوں کی خواہش اور ان کی امداد کی حیثیت سے چاہتے تھے اور نہ اس خیال سے انتقام میں جلدی کیجئے کہ یہ لوگ مدت مہلت میں آپ کو کوئی ضرر پہنچا سکیں گے، سو اس کا بھی اندیشہ نہ کیجئے کیوں) کہ آپ ہماری حفاظت میں ہیں (پھر کاہے کا ڈر، چنانچہ یونہی واقع ہوا) اور (اگر ان کے کفر کا غم دل پر آوے تو اس کا علاج یہ ہے کہ خدا کی طرف توجہ کیجئے، مثلاً یہ کہ) اٹھتے وقت (یعنی مجلس سے یا سونے سے اٹھتے وقت، مثلاً تہجد میں) اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیا کیجئے اور رات (کے کسی حصے) میں بھی اس کی تسبیح کیا کیجئے (مثلاً عشاء کے وقت) اور ستاروں (کے غروب ہونے) سے پیچھے بھی (مثلاً نماز صبح اور مطلق ذکر بھی اس میں آ گیا اور تخصیص ان اوقات کی بوجہ خاصہ اہتمام کے لئے ہے، حاصل یہ کہ اپنے دل کو ادھر مشغول رکھئے، پھر فکر و غم کا غلبہ نہ ہوگا)۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭