میں نے اس حال پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر میں آیا اور گھر میں داخل ہو گیا تو میں نے صحن کو بناوٹ اور حسن میں عمدہ پایا اور اس کے عظیم الشان فرش میں ایک بڑی مجلس لگی ہوئی تھی۔ اس کے بیچ میں ایک نوجوان لڑکا تھا، اس کے سامنے کچھ منشی اور حساب کتاب کرنے والے تھے اور وہ ان کا حساب کتاب کر رہا تھا اور گھر کے چبوترے اور بعض کمروں میں کچھ منشی تھے، ان کے سامنے مال تختیاں اور ترازو تھے، وہ لین دین کر رہے تھے۔
چنانچہ میں نے لڑکے کو دیکھا تو مجھے اس میں اپنے آثار نظر آئے، مجھے اندازہ ہوگیا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ میں لوگوں کے ہجوم میں آکر بیٹھ گیا، یہاں تک کہ مجلس میں میرے اور کچھ لڑکوں کے سوا کوئی نہ بچا۔ تو وہ لڑکا میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا: اے بابا کیا آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
میں نے کہا: ’’ہاں، لیکن وہ ایک ایسی بات ہے جو کہ تمہارے سوا کسی کو سننا جائز نہیں ہے۔‘‘ اس نے ان لڑکوں کو جو اس کے اردگرد کھڑے تھے، اشارہ کیا تو وہ چلے گئے۔ پھر اس نے کہا کہو: ’’خدا تعالیٰ تمہیں عزت دے۔‘‘
میں نے کہا: ’’میں تمہارا باپ ہوں۔‘‘
جب اس نے یہ سنا تو اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا، پھر جلدی سے کھڑا ہوگیا اور مجھ میری جگہ رہنے دیا۔ اتنے میں مجھ کو ایک خادم کی آمد محسوس ہوئی، جو میرے پاس آرہا تھا، اس نے میرے پاس رک کر کہا: ’’میرے آقا میرے ساتھ آیئے، تو میں کھڑے ہو کر اس کے ساتھ چلنے لگا، یہاں تک کہ میں ایک پر سکون کمرے میں ایک لٹکے ہوئے پردے کے پاس پہنچا، وہاں ایک کرسی اس کے سامنے رکھی ہوئی تھی اور وہ خود دوسری کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔‘‘
اس نے کہا: ’’ اے بابا! بیٹھو۔‘‘
میں کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ خادم داخل ہوا۔ اتنے میں اچانک پردے کے پیچھے سے حرکت ہونے لگی تو میں نے کہا: ’’میرا خیال ہے کہ تم میری بات کی سچائی کو جاننا چاہتے ہو۔ تمہارے لیے فلاں کا حوالہ ہی کافی ہے (اور میں نے اپنی باندی اس لڑکے کی ماں کا نام لیا)۔‘‘
کہتے ہیں: ’’اچانک پردہ ہٹ گیا اور باندی نکل کر میرے پاس آگئی اور مجھ پر گر پڑی، میرا بوسہ لینے لگی، مجھے پیار کرنے لگی اور رونے لگی، پھر کہا: خدا کی قسم! یہ میرے آقا ہیں۔‘‘
اس بوڑھے نے بتایا: ’’میں نے اس جواب کو دیکھا کہ وہ نوجوان تشویش زدہ اور حیران و پریشان ہوگیا۔‘‘
میں نے اس باندی سے کہا: ’’تمہارا ناس ہو، تمہاری کیا کہانی ہے؟‘‘
اس نے کہا: ’’میری کہانی چھوڑیئے، میں آپ کو کیا کہانی بتاؤں، یہ جو خدا تعالیٰ کا فضل آپ دیکھ رہے ہیں، وہ کافی ہے۔ آپ بتائیں کہ آپ کی کیا کہانی ہے؟‘‘
تو میں نے اس کو جس دن سے اس کے پاس سے نکلا تھا، اپنے اس دن تک کا قصہ سنایا اور اس نے اپنا قصہ جس طرح سبزی والے کے بیٹے نے سنایا تھا، اسی طرح سنایا، بلکہ اس سے زیادہ عجیب اور تفصیلی اور یہ اس نوجوان کی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنتی کہانی تھی۔ سو جب بات پوری ہوئی تو وہ نکل پڑا اور مجھ کو میری جگہ رہنے دیا۔
اس بوڑھے نے کہا: ’’پھر میرے پاس ایک خادم آیا اس نے کہا:
’’اے میرے آقا! آپ کا بیٹا آپ سے درخواست کرتا ہے کہ آپ اس کے پاس چلے جائیں۔‘‘
وہ بوڑھا کہنے لگا: ’’میں اس کے پاس چلا گیا تو جب اس نے مجھے دور سے دیکھا تو کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: جو کچھ مجھ سے آپ کے حق میں کمی ہوئی ہے، اس کی میں خدا تعالیٰ سے اور آپ سے معذرت کرتا ہوں۔ پس مجھے اچانک آپ کی طرف سے ایسا معاملہ پیش آیا، جس کا میں گمان بھی نہ کرتا تھا کہ وہ ہوگا اور اب یہ نعمت آپ کی ہے اور میں آپ کا بیٹا ہوں۔ امیر المؤمنین ایک عرصے سے یہ کوشش کر رہے ہیں کہ میں یہ عہدہ (وزارت خزانہ) چھوڑ دوں اور گھر میں ان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کروں، مگر میں اپنے کام کو مضبوطی سے پکڑا ہوا ہوں، اب میں ان سے یہ درخواست کروں گا کہ وہ میرا کام آپ کے سپرد کر دیں اور میں ان کی اس کے علاوہ کسی اور کام میں خدمت کر لوں گا۔ سو جلدی سے آیئے اور اپنی حالت درست کر لیجئے۔‘‘
میں غسل خانے میں جاکر نہایا، اس کے بعد خادم میرے پاس ایک پوشاک لے کر آیا۔ میں نے اس کو پہن لیا اور اس کی والدہ کے حجرے کی طرف چلا گیا اور اس میں بیٹھ گیا۔ پھر وہ مجھے امیر المؤمنین کے پاس لے گیا۔ میں نے انہیں اپنا قصہ سنایا تو انہوں نے مجھے انعام میں پوشاک پہنائی اور جو ذمہ داری میرے بیٹے کے پاس تھی، وہ مجھے دے دی۔ میری مہینے کی تنخواہ اتنی ہی مقرر کی جو میرے بیٹے کی تھی اور میرے بیٹے کو دوسری ذمہ داریاں دیں، جو کہ ان کے اہم کاموں میں سے تھیں۔ اس کی تنخواہ کو بڑھا دیا اور اسے جن امور کا والی بنایا، ان میں حاضر رہنے کا حکم دیا۔
سو اب میں تمہارے اچھے برتاؤ کا شکریہ ادا کرنے اور نعمتوں کے دوبارہ حاصل ہوجانے کو بتانے آیا ہوں۔ (راحت پانے والے)
٭٭٭٭٭