علامہ امام ابن الجوزیؒ نے فرمایا کہ، حدیث نبویؐ میں ارشاد ہے کہ بہت سی عجیب و غریب باتیں قوم بنی اسرائیل میں ہوئی ہیں۔ پس ان سے نقل کرکے بیان کیا کرو کوئی حرج نہیں اور آؤ میں تم سے دو بوڑھیوں کا قصہ بیان کروں۔ بنی اسرائیل میں ایک نوجوان شخص تھا، جس کی بیوی اس سے بہت محبت کرتی تھی اور اس مرد کی ایک بڑھیا ماں جو بڑی پارسا اور نیک عورت تھی اور اس کی ایک بڑھیا ساس تھی۔ جو بد اور بری عورت تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو خاوند کی ماں کے متعلق بھڑکایا کرتی تھی اور دونوں بوڑھیوں کی آنکھوں کی روشنی ختم ہو چکی تھی۔
اس نوجوان کی بیوی ہمیشہ اس کے پیچھے پڑی رہتی تھی کہ تو اپنی ماں کو گھر سے نکال دے۔ روز روز کے جھگڑے اور فتنہ و فساد اور اپنی ساس اور بیوی کے بار بار اصرار پر وہ تنگ آچکا تھا۔ یہاں تک ہوا کہ وہ شخص اپنی نیک اور بزرگ ماں کو لے کر بہت دور کسی بیابان، خوفناک جنگل میں بے آب و دانہ چھوڑ آیا کہ اسے درندے کھا جائیں گے۔ اس ضعیفہ ماں کو وہاں چھوڑ کر لوٹ آیا، اس کے بعد اسے درندوں نے آگھیرا۔
اتنے میں ایک فرشتہ اس کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ اے بی بی یہ کیسی آوازیں ہیں، جو تیرے چاروں طرف مجھے سنائی دیتی ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ اچھی آوازیں اونٹ، گائے اور بکریوں وغیرہ کی آوازیں ہیں۔ اس نے کہا اچھا خدا نے چاہا تو ایسا ہی ہوگا۔ یہ کہہ کر فرشتہ چلا گیا۔
حق تعالیٰ کی حکمت کہ جب صبح ہوئی تو تمام میدان اونٹوں، گایوں اور بکریوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے بیٹے نے کہا آؤ چل کر دیکھوں کہ میری ماں کا کیا حال ہوا ہے (مثل مشہور ہے، جسے رب رکھے اسے کون چکھے) چنانچہ وہ آیا، دیکھتا کیا ہے کہ سارا میدان اونٹ، گائے اور بکریوں سے بھرا ہوا ہے۔
اپنی ماں سے پوچھنے لگا: اے ماں یہ کیا ہے؟ وہ بولی بیٹا تو نے اور تیری ساس اور بیوی نے مجھے ستایا تھا اور تو نے ان کا کہا مانا تھا اور تو نے اپنی طرف سے مجھے درندوں کے حوالے کر دیا تھا۔ لیکن میرے خالق و مالک نے میری حفاظت فرمائی اور ہر شے پر اسی کا حکم چلتا ہے، یہ سب کچھ اسی کا کرشمہ ہے۔ جو تو دیکھ رہا ہے، اب تجھے چاہئے کہ خدا پر ایمان و یقین لا اور اپنی ماں کا حق پہچان۔
اس کے بعد وہ اپنی ماں کو اٹھا کر لے گیا اور جو کچھ خداتعالیٰ نے اس پارسا عورت کو عطا کیا تھا، ہانک کر مع اپنی ماں کے اپنی بی بی اور ساس کے پاس پہنچا، تو وہ سخت حیران و پریشان ہوگئیں کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ اس کی گستاخ بی بی بجائے توبہ استغٖفار کے کہنے لگی کہ خدا کی قسم میں ہرگز نہ مانوں گی، جب تک تم میری ماں کو بھی وہاں جا کر نہ چھوڑ آؤ، جہاں اپنی ماں کو چھوڑ آئے تھے۔ اس خیال سے کہ اس طرح میری ماں کو بھی وہی کچھ ملے گا، جو مرد کی ماں کو ملا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے:
کام دوزخ کیلئے جنت کا ہے امیدوار… قصر جنت تو بنا ہے پارسا کے واسطے چنانچہ وہ اس بوڑھی ساس کو بھی لے گیا اور وہیں چھوڑ آیا، جہاں اپنی ماں کو چھوڑ آیا تھا۔ جب شام ہوئی تو جنگل کے درندوں نے اسے آ گھیرا اور وہی فرشتہ جو اس کی ماں کے پاس آیا تھا۔ پھر آیا اور کہنے لگا: اے بڑھیا مائی یہ کیسی آوازیں ہیں جو تجھے چاروں طرف سنائی دے رہی ہیں۔ اس نے کہا بہت بری اور خطرناک درندوں کی آوازیں ہیں، یہ مجھے کھانا چاہتے ہیں۔
فرشتہ نے کہا بہت برا ہوا اور ایسا ہی ہو جائے گا (جیسا کہ یہ بھی ایک مثل مشہور ہے چاہ کن را چاہ درپیش، برائی کرنے والا خود برائی کا شکار ہوتا ہے۔ یا جو کسی کیلئے گڑھا کھودتا ہے وہ خود اس میں گرتا ہے) اس کے بعد فرشتہ چلا گیا اور ایک ہی درندہ آکر اس حاسدہ اور خدا کی نافرمان عورت کو آکر کھا گیا۔ جب صبح ہوئی تو اس شخص کی بیوی نے کہا جاؤ ذرا دیکھو تو میری ماں کا کیا حال ہے۔
اس عورت نے سوچا تھا کہ میری ساس کی طرح بہت سے قیمتی جانوروں کے ساتھ میری ماں بھی آج آئے گی وغیرہ۔ جب وہ جوان صبح وہاں گیا تو دیکھا کہ جو کچھ درندوں نے کھا کر چھوڑا تھا، اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ اس نے اپنی بیوی کو اس کی ماں کی کچھ ہڈیاں لا کر دیدیں اور وہ نافرمان عورت غم کے مارے فوراً مر گئی۔ (نزہۃ المجالس جلد 1 ص 400)
نہ خدا ہی ملا وصال صنم… نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
٭٭٭٭٭