چین کے مصنوعی چمڑے نے کھالوں کی صنعت کا بھٹہ بٹھادیا

محمد زبیر خان
پاکستان میں کھالوں کی صنعت زوال کا شکار ہے اور اس کا سبب چینی کی جانب سے متعارف کرایا گیا مصنوعی چمڑا ہے۔ ہر سال قربانی کے جانوروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود کھالوں کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ بحران کا آغاز 2014ء میں ہوا اور 2017ء تک قیمتوں میں 30 سے 35 فیصد کمی ہوئی۔ جبکہ درآمد کے آرڈر بھی گزشتہ سال کی نسبت آٹھ سے دس فیصد کم ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جس کے سبب مقامی مارکیٹ میں کھالوں کی قیمتیوں میں مزید آٹھ سے دس فیصد کمی کا امکان ہے۔ نقصان ہونے اور دیگر وجوہات کے سبب اس صنعت سے وابستہ 35 فیصد لوگ کاروبار چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن نے کھالوں کی صنعت کو ایکسپورٹ کا درجہ دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین اعجاز احمد شیخ کے بقول اگر ان کی تجاویز کو مانا گیا تو نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھیں گے، بلکہ زرمبادلہ بھی آئے گا۔
پاکستان میں ہر آنے والی عیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی تعداد بڑھ رہی ہے، لیکن اس کے باوجود کھالوں کی صنعت زوال پذیر ہے۔ پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس ساٹھ سے پینسٹھ لاکھ چھوٹے بڑے جانور قربان کئے گئے، جو پہلے کے برسوں کے مقابلے میں بیس سے تیس فیصد زیادہ تھے۔ قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے والی تنظیموں الخدمت فائونڈیشن، الفلاح فائونڈیشن، شوکت خانم اور دیگر رفاہی تنظیموں کے مطابق بھی ان کو ہر سال قربانی کی کھالیں پہلے سے زیادہ مل رہی ہیں، لیکن کھالوں کی قیمت کم ہونے کے سبب عوام کی فلاح و بہبود کیلئے جمع ہونے والی رقم میں کمی ہو رہی ہے۔ الخدمت فاونڈیشن پشاور کے صدر فدا محمد خان کے بقول ’’الخدمت نے پشاور میں 2015ء میں پندرہ سو کے قریب چھوٹی بڑی کھالیں اکٹھی کیں تھیں، جن سے 32 لاکھ روپے ملے تھے۔ اس کے مقابلے میں 2017ء میں پشاور سے تین ہزار کھالیں ملیں مگر کھالوں کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سولہ، سترہ لاکھ روپے تھی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مارکیٹ میں کھالوں کی قیمتیں کس تیزی سے گر رہی ہیں۔ زیادہ کھالیں اکٹھی کرنے کے باوجود کم رقم ملنے سے امدادی سرگرمیوں پر بھی اثر پڑ رہا ہے‘‘۔ اسی طرح کے خیالات کا اظہار دیگر تنظیموں نے بھی کیا۔
پاکستان ٹینریز ایسوسی ایشن کے نائب چیئرمین اعجاز احمد شیخ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ سال 2013ء اور اس سے پہلے حالات مناسب تھے اور پاکستان عالمی مارکیٹ میں ایک فیصد سے زائد حصہ وصول کر رہا تھا۔ ملکی سطح پر مسائل تھے، مگر بین الاقوامی سطح پر ڈیمانڈ موجود رہتی تھی۔ مگر 2014ء میں چین کی جانب سے مصنوعی چمڑا متعارف کرائے جانے کے بعد سے پاکستان سمیت پوری دنیا میں کھالوں کی ڈیمانڈ میں کمی واقع ہونے لگی۔ 2014ء سے لے کر گزشتہ سال تک کھال کی ایکسپورٹ سوا ارب ڈالر سے کم ہو کر ایک ارب ڈالر سے بھی نیچے چلی گئی ہے۔ اس کے سبب تقریباً تیس سے پینتیس فیصد لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑا اور وہ کاروبار چھوڑ گئے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ قدرتی کھالوں کی مانگ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر کم ہوئی ہے اور اس کا سبب چین کا مصنوعی چمڑا ہے۔ اس سال بھی جولائی سے جو نیا مالیاتی سال شروع ہوا ہے، محسوس ہو رہا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ایکسپورٹ کے آرڈر دس سے پندرہ فیصد کم ہوں گے۔ اسی طرح مقامی مارکیٹ میں کھالوں کی خریدای نرخ بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں دس سے پندرہ فیصد مزید کم ہوں گے۔ تاہم اس کے باوجود امکان ہے کہ ایک دو سال کے اندر عالمی سطح پر لوگ واپس قدرتی کھالوں کی طرف آئیں گے اور کاروبار میں بہتری آئے گی۔ اس وقت بھی پوری دنیا میں لوگ اسی وجہ سے اس کاروبار سے جڑے ہوئے ہیں کہ جب بہتری آئے گی تو ہر ایک اپنا نہ صرف نقصان پورا کرلے گا، بلکہ فائدہ اٹھائے گا‘‘۔ اعجاز احمد شیخ نے بتایا کہ پاکستان میں اس صنعت سے جڑے لوگوں کو کسی قسم کی سہولتیں نہیں دی جارہی ہیں۔ بلکہ مختلف ادارے جن میں ایف بی آر وغیرہ شامل ہیں، لوگوں کو بلا وجہ تنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ کاروبار کم ہے اور نقصان میں جا رہا ہے، مگر اس کے باوجود لمبی چوڑی وضاحتیں طلب کی جاتی ہیں۔ نوٹسز دے کر دفاتر میں گھنٹوں بینچوں پر بٹھایا جاتا ہے اور ٹیکس پر ٹیکس دینے کے باوجود بھی کوئی سہولتیں نہیں دی جارہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں اس صنعت کی مارکیٹ کورنگی کی سیون نمبر اسٹریٹ پر واقع ہے۔ اس اسٹریٹ میں نہ تو نکاسی آب کا کوئی مناسب نظام ہے اور نہ صفائی ستھرائی اور پانی کا کوئی انتظام ہے۔ لوڈ شیڈنگ، مہنگی بجلی گیس جیسے مسائل سے لاگت میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔ اعجاز احمد شیخ کے بقول ’’حکومت نے اب تک ہمارے مسائل حل کئے نہ تعاون کیا کہ ہم اس کی ایکسپورٹ میں اضافہ کر کے پاکستان میں زر مبادلہ لاسکیں۔ ہم حکومتی اہلکاروں اور بالخصوص نئی حکومت سے کہتے ہیں کہ کھالوں کی صنعت میں آنے والے دنوں میں بین الاقوامی سطح پر بہت زیادہ مواقع پیدا ہونے کا امکان موجود ہے۔ اس کے لئے لازم ہے کہ حکومتی سطح پر کچھ اقدامات اٹھائے جائیں۔ اگر حکومت ہمارے ساتھ بات کرے اور ہماری تجاویز پر عمل کرے تو ہمیں امید ہے کہ عالمی سطح پر ہم اپنے کاروباری شیئر میں اضافہ کر سکتے ہیں اور یہ ملک و قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ اس سے نہ صرف مقامی سطح پر روزگار کے مواقع بڑھیں گے، بلکہ زرمبادلہ بھی آئے گا۔ ہماری ایسوسی ایشن کا پہلا متفقہ مطالبہ یہ ہے کہ اس صنعت کو ایکسپورٹ صنعت کا درجہ دے دیا جائے، تاکہ ملکی سطح پر ہمیں جن اضافی ٹیکسوں اور دیگر مسائل کا سامنا ہے، ان سے جان چھوٹ سکے‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment