امت رپورٹ
کراچی کی مویشی منڈیوں میں تاحال مندی دیکھی جارہی ہے۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ انتخابی گہما گہمی کے سبب ابتدائی دنوں میں مارکیٹ ٹھنڈی رہی۔ اور اب بھی یوم آزادی (14 اگست) کے بعد ہی خریداروں کا رش بڑھنے کی امید ہے۔ شہر کی مویشی منڈیوں میں تاحال 4 لاکھ چھوٹا بڑا جانور لایا جا چکا ہے۔ ملیر مویشی منڈی میں ملک بھر سے آنے والے بیوپاری پریشان ہیں کہ کراچی میں کانگو وائرس کے حوالے سے الرٹ جاری ہو چکا ہے۔ لیکن ملیر کی منڈی میں سرکاری جگہ پر کئی کئی فٹ گندگی پر جانور باندھے جا رہے ہیں، جس کی وجہ سے خریدار بھی کم آرہے ہیں۔ جبکہ نجی باڑوں میں جگہیں تو صاف ہیں، تاہم جانوروں کے باندھنے کی رقم زیادہ وصول کی جا رہی ہے۔ بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ اس بار منڈیوں میں الیکشن، حکومت سازی اور یوم آزادی کی وجہ سے خریداری میں تیزی اب تک نہیں آئی۔ اس طرح جانور رکھنے کا دروانیہ زیادہ ہوگا اور مختلف اخراجات بڑھنے پر جانور گزشتہ سال کی نسبت 40 فیصد مہنگا ملنے کا خدشہ ہے۔
ملیر کی منڈی میں اب تک ڈیڑھ لاکھ چھوٹا بڑا جانور لایا جاچکا ہے۔ سرکاری منڈی کی جگہ کم پڑنے پر بہت سے مویشی نجی پلاٹوں اور اطراف کی آبادیوں میں رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں بقرعید سے ڈیڑھ ماہ قبل ہی سپر ہائی وے پر مویشی منڈی لگ جاتی ہے۔ جبکہ ملیر، مواچھ گوٹھ، لانڈھی اور بھینس کالونی کی سال بھر لگنے والی مویشی منڈیوں میں بھی لاکھوں جانور معمول سے ہٹ کر بقرعید کیلئے آتا ہے۔ اسی طرح لگ بھگ 2 سو سے زائد بڑی چھوٹی مویشی منڈیاں سج جاتی ہیں۔ عید سے کچھ عرصہ قبل تو گلی کوچوں، میدانوں اور فٹ پاتھ پر بھی جانور فروخت ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ شہر میں ہر بقرعید پر لگ بھگ 15 لاکھ جانور ملک بھر سے لایا جاتا ہے، جن میں بکرے، بھیڑیں، گائے، بیل، بھینس اور اونٹ شامل ہوتے ہیں۔ تاہم اس بار الیکشن کی وجہ سے ابتدائی بزنس متاثر ہوا، جبکہ تاحال سیاسی ہلچل جاری ہے۔ 14 اگست بھی آ رہی ہے، جس کیلئے کراچی کے شہریوں نے تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ لہذا یوم آزادی کے بعد ہی مویشی منڈیوں میں خریداروں کا رش بڑھنے کا امکان ہے۔
کراچی میں اس مربتہ مویشی منڈیاں کم لگی ہیں، جبکہ خریداروں کی تعداد بھی خاصی کم نظر آرہی ہے۔ دوسری جانب برسات کا موسم سر پر ہونے سے بیوپاری پریشان ہیں کہ بارشوں کے شروع ہونے پر بہت سے مسائل پیدا ہوں گے اور جانور بیمار ہو سکتے ہیں۔ اس بار جانوروں کے خریداروں کے تاخیر سے آنے پر جانوروں کا منڈی میں دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ اس طرح جانوروں کے چارے، پانی، دوائیوں اور دیگر اخراجات بڑھنے کی صورت میں جانور مہنگا ہونے کا امکان ہے۔ ادھر کراچی میں محکمہ صحت نے کانگو وائرس کے حوالے سے چند روز قبل الرٹ جاری کر دیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود کراچی کے تمام داخلی راستوں پر آنے والے جانوروں کو چیک کرنے یا ان کو موسمی بیماریوں کے حوالے سے ویکسین کرانے کا کوئی سلسلہ سرے سے ہے ہی نہیں۔ نہ ہی منڈیوں میں زیادہ تعداد میں آنے والے جانوروں کیلئے مخصوص طریقے سے صفائی کرا کے جراثیم کش ادویات کا اسپرے کیا گیا۔
’’امت‘‘ کی جانب سے ملیر مویشی منڈی کا خصوصی سروے کر کے صورتحال معلوم کی گئی۔ واضح رہے کہ ملیر بکڑا پیڑی میں سال بھر بڑے چھوٹے جانوروں کو ملک بھر سے لایا جاتا ہے اور شہریوں کو ان کا گوشت فراہم کیا جاتا ہے۔ ملیر مویشی منڈی میں، جہاں عام دنوں میں تقریباً 40 ہزار جانور موجود ہوتے ہیں، بقرعید کیلئے لگ بھگ دو ڈھائی لاکھ جانور لائے جاتے ہیں۔ چند روز قبل مویشیوں کے ایک بیوپاری نے عدالت میں درخواست دی کہ ملیر منڈی میں بقرعید کیلئے لائے جانے والے جانوروں پر مقامی لوگ، پولیس اور کے ایم سی والے بھتہ وصولی کر رہے ہیں اور بیوپاری وسائل نہ ملنے اور بھاری رقم بطور چنگی ادا کرنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ جس پر عدالت نے معاملہ ایس ایس پی ملیر کے حوالے کیا ہے کہ 10 اگست تک سارے واقعات کی رپورٹ بنا کر جمع کرائیں۔ ملیر بکرا پیڑی کا مرکزی راستہ جو غازی ٹاؤن سے آرہا ہے وہاں کے ایم سی کے شعبہ ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کیمپ لگایا گیا ہے۔ وہاں موجود عملے کا کہنا تھا کہ عام دنوں میں بڑے جانور کے 150 اور چھوٹے جانور کے 50 روپے وصول کرتے ہیں۔ جبکہ اس وقت ڈسٹرکٹ کونسل کراچی کی رسیدیں بنا کردی جارہی ہیں۔ تاہم کوئی اہلکار بڑے جانور کے 500 روپے، تو کوئی 750 روپے وصول کررہا تھا۔ وہاں موجود حیدر بلوچ کا کہنا تھا کہ ملیر مویشی منڈی مقامی بااثر لوگوں نے یرغمال بنائی ہوئی ہے۔ بکرے کے تاجر سمیر احمد کا کہنا تھا کہ ملیر بکرا پیڑی کا برا حال ہے۔ معاملہ عدالت میں ہے اور یہاں پر مرضی سے مختلف ادارے چنگی وصول کر رہے ہیں۔ بیوپاری خدا بخش کا کہنا تھا کہ بقرعید سے قبل بڑھ جانے والے چنگی ٹیکس کا پیسہ منڈی پر نہیں لگایا جاتا۔ بیوپاری اشرف کا کہنا تھا کہ میرپور خاص، نواب شاہ، مورو، ٹنڈو آدم، بدین کی منڈیوں سے بکرے لاکر مختلف جگہوں پر ڈمپ کر دیئے گئے ہیں۔ ملیر منڈی کی صورت حال بہتر ہوگی تو ادھر مال کافی آئے گا۔ نجی پلاٹوں پر قائم باڑے میں جانور رکھنے والے ساون کا کہنا تھا کہ جانوروں کے بیوپاری کراچی کے انٹری پوائنٹ سے اب تک جگہ جگہ رقم ادا کر رہے ہیں۔ بیوپاری محمود کا کہنا تھا کہ یہاں 2500 روپے میں ایک کھونٹی کرائے پر دی جاتی ہے، جس کے ساتھ چار جانور باندھے جاتے ہیں۔ جبکہ پانی اور بجلی کے ریٹ الگ وصول کئے جاتے ہیں۔ کشمور سے جانور لے کر آنے والے برکت کا کہنا تھا کہ منڈی کی صورت حال خراب ہے۔ رحیم کا کہنا تھا کہ ایک ہفتے میں ساری صورت حال واضح ہو جائے گی۔
٭٭٭٭٭