اصحابؓ رسول ؐ کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا

صلح حدیبیہ کے موقع پر عروہ بن مسعود جب کفار مکہ کا نمائندہ بن کر مسلمانوں کی قیام گاہ میں آیا تو اس نے اصحاب رسولؐ کی خدمت میں، اطاعت اور عقیدت کے جو انداز دیکھے، اس نے عروہ کی عقل کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس نے دیکھا کہ ہر مسلمان اپنے رسولؐ کے عشق میں دیوانہ ہے۔ جب آپؐ وضو کرتے ہیں تو یہ شیدائی پانی زمین پر نہیں گرنے دیتے، بلکہ اس کو ہاتھ میں لے کر اپنے جسم پر مل لیتے ہیں۔ اس پانی کو حاصل کرنے میں لڑائی ہوتی ہے۔ رسول اقدسؐ کا اشارہ ملنے کا سب کو انتظار رہتا ہے۔ اشارہ ملتے ہی بجلی کی طرح اس کام کو انجام دیدیتے ہیں۔ تعظیم کے سبب کوئی شخص آپؐ کے روبرو نگاہ نہیں اٹھاتا۔ اگر کوئی دوسرا شخص بھی ادب میں کوتاہی کرتا ہے تو اس سے لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
عروہ بن مسعود نے واپس جاکر قریش مکہ کو بتایا: ’’بھائیو! میں اکثر کسریٰ، قیصر اور نجاشی کے درباروں میں گیا ہوں۔ میں نے کسی کو ان بادشاہوں کی اتنی عزت کرتے نہیں دیکھا، جتنی محمد (ﷺ) کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ بخدا! تم ان لوگوں کے مقابلہ میں ہرگز نہ ٹک سکو گے، میرا مشورہ ہے کہ ان سے صلح کرلو، بہتر رہے گا‘‘
عروہ بن مسعود نے جس انداز سے صحابہ کرامؓ کے دلوں میں رسول اقدسؐ کی عقیدت و احترام کی منظر کشی کی، اس سے قریش بہت متاثر و مرعوب ہوئے۔ چنانچہ انہوں نے رسول اکرمؐ سے صلح کر لی اور حرم کی حدود میں ایک جنگ ہوتے ہوتے بچ گئی۔ (بخاری کتاب الشروط فی الجہاد والمصالحہ)
اقتدائے رسولؐ
صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اقدسؐ نے حضرت عثمان غنیؓ کو قریش سے مصالحت کی گفتگو کرنے کے لیے مکہ بھیجا کہ وہ قریش کو بتائیں کہ مسلمان صرف عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ آئے ہیں۔ اس لئے اہل مکہ کوئی فتنہ و فساد پیدا نہ کریں۔ حضرت عثمان غنیؓ اپنے ایک رشتہ دار ابان بن سعید بن العاص سے جا کر ملے اور اس کی امان میں سرداران قریش، ابو سفیان وغیرہ کے پاس گئے۔ حضرت عثمان غنیؓ نے ان لوگوں کو بتایا کہ رسول اکرمؐ کی نیت صاف
ہے اور وہ صرف عمرہ کے پاک ارادہ سے حرم شریف آئے ہیں۔ اس میں قریش مکہ کا کوئی نقصان نہیں ہے کہ مسلمان پرامن طریقے سے عمرہ کے ارکان ادا کریں اور چلے جائیں۔
قریش کے ان سرداروں نے جواب دیا ’’عثمان یہ تو ہرگز ممکن نہیں ہے کہ ہم محمدؐ اور مسلمانوں کو عمرہ کی اجازت دیں۔ البتہ تم کو اجازت ہے کہ تم عمرہ ادا کر سکتے ہو۔‘‘
حضرت عثمانؓ نے فرمایا: ’’اے قریش کے لوگو! یہ کیسے ممکن ہے کہ میرے محبوب رسولؐ تو خدا کے گھر کے دیدار کی تڑپ دل میں لیے ہوئے ایسے ہی واپس چلے جائیں اور ان کا یہ ادنیٰ غلام عمرہ کرے؟ خدا کی قسم عثمان سے یہ ہر گز نہ ہوگا۔‘‘
غرض حضرت عثمانؓ بھی بغیر عمرہ کیے ہی واپس لوٹ آئے۔ (تاریخ عروج اسلام، صفحہ 29)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment