سرفروش

عباس ثاقب
یہ سب اتنا غیر متوقع تھا کہ مجھے صورتِ حال سمجھنے میں وقت لگا۔ ادھر ٹارچ کی روشنی مجھے اندھا کئے دے رہی تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ میں موجود شاٹ گن زمین پر ڈال کر دونوں ہاتھوں سے آنکھیں ڈھانپ لیں۔ مجھے زمین پر پڑی بندوق پاؤں سے ایک طرف سرکائے جانے کی آواز سنائی دی۔ بالآخر سردارنی نے میری مشکل آسان کی’’جسی، بیٹری دی لیٹ اِک پاسے کر، تے بندوق چُک لے!‘‘ (جسی، ٹارچ کی لائٹ ایک طرف کرو اور بندوق اٹھالو)۔ پھر وہ غرانے کے انداز میں مجھ سے مخاطب ہوئی۔ ’’چھیتی دس، میرا سائیں بکرم کتھے وے؟ واہگورو دی سوگند، اوہدا بال وی بیکا ہویا، تے میں تیرے ٹوٹے کر دیاں گی!‘‘ (جلدی بتاؤ، میرا سائیں بکرم کہاں ہے؟ اسے ذرا بھی ضرر پہنچی تو واہگورو کی قسم میں تمہارے ٹکڑے کردوں گی!)۔
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اس کے سوال کا کیا جواب دوں۔ کہہ دوں کہ تمہارا شوہر یہاں سے بہت دور گنے کے کھیت میں شاید بے ہوشی کے عالم میں ٹھٹھر رہا ہے۔ لیکن میری خاموشی پریتو کو مزید مشتعل کر رہی تھی ’’اوئے تُو اُچا سننا اے؟ تُو کی کیتا بکرم سنگھ نال؟ مینوں تُرنت دس، نئیں تے دوہاں نالاں تیرے پنڈے تے خالی کردیاں گی!‘‘ (کیا تم اونچا سنتے ہو؟ تم نے بکرم سنگھ سے کیا سلوک کیا؟ مجھے فوراً بتاؤ، ورنہ میں بندوق کی دونوں نالیاں تمہارے جسم پر خالی کردوں گی)۔
’’ انہیں کچھ نہیں ہوا، زندہ سلامت ہیں!‘‘۔ میں نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں اچھا خاصا فرار کا آسان راستہ چھوڑ کر غلط فیصلے کے نتیجے میں یہاں آکر پھنسنے پر خود کو کوس رہا تھا۔
میرے مختصر جواب سے اس کی تشفی ہونے کے بجائے اس کے لہجے میں اضطراب بڑھ گیا ’’جوٹھ نہ بک، اوہنوں کجھ نی ہویا تے تُو اوناں دی گڈی کیویں کھو لئی؟ اے بندوق تیرے کول کتھوں آگئی؟… میں اخیر واری چتاونی دینی آں… دس او کتھے نیں؟‘‘ (جھوٹ مت بولو، انہیں کچھ نہیں ہوا تو ان کی گاڑی تم نے کیسے چھین لی؟ یہ بندوق تمہارے قبضے میں کیسے آگئی، میں آخری بار خبردار کررہی ہوں، بتاؤ وہ کہاں ہیں؟)۔
اس دیہاتی عورت نے حیرت انگیز طور پر صورتِ حال کو نہایت مہارت سے اپنے قابو میں کر رکھا تھا اور اتنی چوکس لگ رہی تھی کہ داؤ آزمانے کی کوئی بھی کوشش جان لیوا ثابت ہو سکتی تھی۔
اسے صورتِ حال سمجھانے کی کوشش مجھے بے سود لگی، لہٰذا میں نے خاموش رہنا بہتر سمجھا۔ اب اپنی نجات کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنے کے علاوہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ لیکن میری یہ خاموشی ان دونوں خواتین کو کیسے گوارا ہوتی۔ جسی نے تنک کر اپنی مالکن کو مشورہ دیا ’’سردارنی جی، اے انج جبان نئی کھولنی، میں مجھاں دے کامیاں نوں سڈنی آں! اینوں بندھ کے کُٹ لانی پاؤ گی!‘‘ (سردارنی جی، یہ ایسے نہیں مانے گا! میںگوالوں کو بلاتی ہوں! اس کی پٹائی لگوانی پڑے گی)۔
’’نی صبر رکھ، مینوں گل کرن دے، خبرے سردار جی کس حال اچ نے!‘‘۔ (اری صبر کر، مجھے بات کرنے دے، پتا نہیں سردار جی کس حال میں ہیں؟‘‘) پریتو کے لہجے میں اب اشتعال کے بجائے خوف تھا۔ یک لخت مجھے اپنی جانی دشمن کے روپ میں موجود اس عورت پر بے ساختہ تر س محسوس ہوا ’’آپ پریشان نہ ہوں، یقین کریں وہ محفوظ ہیں۔ ان کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ میں انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتا!‘‘۔
میری بات سن کر پریتو سردارنی بے ساختہ بول اٹھی ’’سچ ؟ پر او کتھے نیں؟ تیرے اس یار، جہیر دے کول؟ تُساں سردار جی اُتے ہتھ تے نئیں چُکیا؟‘‘۔
اچانک میرے ذہن میں بجلی سی چمکی۔ اس نے سادگی میں مجھے ایک راہ سجھادی تھی۔ تاش کے کھیل میں جیتنے کا ایک داؤ ’’بلف ‘‘ کہلاتا ہے، جس میں کھلاڑی یہ ناٹک کرتا ہے کہ اس کے پاس بہت اچھے پتے ہیں، اور اسی جھانسے کے ذریعے وہ مقابل کھلاڑیوں کو شکست تسلیم کرنے یا کم ازکم غلط داؤ کھیلنے پر مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پریتو نے مجھے موقع دے دیا تھا۔ لہٰذا میں نے پُر اعتماد لہجے میں کہا ’’سردار بکرم ہم دونوں کے لیے قابل احترام ہے۔ ان پر ہاتھ اٹھانے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ بالکل صحیح سلامت اور ایک محفوظ جگہ ظہیر کے ساتھ موجود ہیں۔ البتہ سورن سنگھ کو چوٹ آئی ہے۔ ظہیر کا ہاتھ کچھ سخت پڑگیا تھا‘‘۔
پریتو سردارنی نے میری بات غور اور تحمل سے سنی۔ مجھے لگا کہ اسے کچھ اطمینان ہوا ہے۔ لیکن اب اس کے بجائے جسی تڑپ اٹھی ’’اوس مرجانے جہیر نے میرے سورن تے ہتھ چُکیا؟… میں اوہدا ہتھ وڈ دیاں گی! … سچ دس سورن نوں گمبھیر سٹ تے نہیں وجی؟‘‘ (اس مردود ظہیرنے میرے سورن پر ہاتھ اٹھایا؟ میں اس کا ہاتھ کاٹ دوںگی۔ سچ بتاؤ، سورن کو شدید چوٹ تو نہیں آئی؟)۔
میں نے اسے یقین دلایا کہ سورن سنگھ کی زندگی محفوظ ہے، حالانکہ مجھے خود اس کی سلامتی کا یقین نہیں تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment