شاہشاہ نور خان نے مناسب معاوضہ طے کرکے سیدی اکرام اور سیدی منعم کو نصف اس کا اسی وقت ادا کیا اور ان کے ساتھ پیدل چلا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس نے دیکھا کہ سڑک، میدان، درخت، جھاڑیاں، پھلیاں اور بیج جو جانوروں یا چڑیوں نے کھا کر یا کترکر چھوڑ دیئے تھے، حتیٰ کہ جانوروں کا گوبر اور چڑیوں کی بیٹ، وہ تمام چیزیں جو اس کے لئے کوئی خاص معنی نہ رکھتی تھیں، سیدیوں کے لئے بچوں کی کتاب کی طرح تھیں جن پر موٹے موٹے حرفوں میں الف بے پے لکھا ہوا تھا۔ پچھلے کئی دنوں کے واقعات وہ یوں بیان کر رہے تھے گویا وہ قصے ہوں جو انہوں نے پہلے سے یاد کر رکھے تھے۔ پہلی بار وہ قائم گنج سے بلہور تک تیز تیز گئے، یعنی انہوں نے گھنٹہ بھر میںکوئی ایک کوس کا فاصلہ طے کیا۔ پھر بھی، جہاں جہاں انہیں شک گزرا کہ یہ جگہ مزید تفتیش چاہتی ہے، وہاں تھوڑی دیر رک کر وہ سرخ کپڑے کا ایک ٹکڑا رکھ کر اس پر کوئی ہاتھ بھر کی گلی مضبوط گاڑ دیتے۔ واپسی میں وہ ہر مشکوک مقام پر ٹھہرتے اور دیر تک نشانات زمین کو دیکھتے، حالانکہ شاہ نور خان کو کچھ بھی علامت وہاں قافلے کے قیام یا انجام کی دکھائی نہ دیتی تھی۔ اس طرح انہوں نے دو جگہیں متعین کیں جہاں میرزا تراب علی کا قافلہ تھوڑی دیر کے لئے راہ میں ٹھہرا تھا۔
’’تم لوگ یہ کیونکر کہہ سکتے ہوکہ نشانات یہ ہمارے ہی مالک کے قافلے کے ہیں جو تم نے دریافت کئے ہیں؟‘‘۔ شاہ نور خان نے شک سے بھرے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
’’سوں کھا کر تو ہم بھی نہیں کہہ سکتے میاں جی‘‘۔ سیدی منعم نے جواب دیا۔ ’’لیکن ہماری بدیا کہتی ہے کہ یہاں جو قافلہ رکا تھا، اس میں چار گھوڑے، چار خچر، اور سات آدمی تھے‘‘۔
’’خچر گھوڑے اور آدمی میں تم بھلا فرق کیسے کرتے ہوگے؟‘‘۔
’’ہر ایک کی بو الگ ہوتی ہے۔ اور نشان بھی ان کے اٹھنے بیٹھنے کے الگ ہوتے ہیں۔ دیکھئے یہاں خچروں کے نشان ہیں، مٹ گئے ہیں، لیکن پہچان میں آتے ہیں۔ خچر یہاں کچھ دیر ٹھہرے تھے اور ان کے اوپر کسی اور جانور کا نشان نہیں ہے۔ یہ ہمارے بھاگ کی بات ہے کہ بھوئیں بھی یہاں کچھ نرم ہے، نشان آسانی سے لے لیتی ہے‘‘۔
شاہ نور نے غور سے دیکھا تو واقعی اسے کچھ بالکل دھندلے نشان سم دکھائی دیئے، یا نشان سم کا وہم سا دکھائی دیا۔ اسے انکار کا چارہ نہ تھا کہ کچھ نہ کچھ تو وہاں تھا ضرور۔ اب اس کے دل میں کچھ امید جاگی کہ اس کے مالک کا کچھ پتہ نشان لگ جائے گا۔ لیکن کیا پتہ لگے گا؟ اس خیال سے اس کا دل ڈوبا جاتا تھا کہ کہیں یہ پتہ گور غریباں کی صورت میں نہ ہو۔
قائم گنج کوئی تین کوس تھا، جب سیدی لوگ اپنی گاڑی ہوئی آخری گلی پر پہنچے۔ یہاں انہوں نے ایک بڑے قطعۂ زمین پر خط کھینچ کر مربع سا بنایا۔ پھر اس مربع کو انہوں نے چھوٹے چھوٹے مربعات میں تقسیم کیا۔ ایک طرف سے ایک سیدی اور دوسری طرف سے دوسرے نے زمین پر پیٹ کے بل لیٹ کر ایک ایک مربع کو غور سے دیکھنا، سونگھنا اور آہستہ آہستہ کریدنا شروع کیا۔ اس وقت ان کے چہروں پر اس قدر شدت کا ارتکاز اور ان کے جسموں میں ایسا تناؤ اور ہلکی ہلکی لرزش تھی گویا وہ انسان سے زیادہ بودار کتے ہوں۔ کوئی دو ڈھائی گھنٹے تک مربعات زمین کے ہر ہر انگل کو بغور دیکھتے، کریدتے، سونگھتے دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کوئی آٹھ دس ہاتھ کی دوری پر رک گئے اور نعرے کے انداز میں بولے ’’وہ مارا! جمعدار جی، یہاں کھدائی کراؤ‘‘۔
شاہ نور خان اور اس کے ساتھیوں نے دونوں طرف سے کھدائی فوراً شروع کر دی۔ کوئی دو گھڑی کے اندر اندر گور گڑھا صاف نمایاں ہوگیا، اور اس کے اندر جو جسم محبوس تھے…، شاہ نور خان اور اس کے ساتھی ابکائیاں لیتے ہوئے اور ’’یا اللہ توبہ! یا اللہ توبہ!‘‘ پکارتے ہوئے لڑ کھڑا کر پیچھے ہٹ گئے۔ صرف دونوں سیدی اپنی جگہ پر جمے رہے۔ اوپر تلے آٹھ قریب قریب ننگی لاشیں، باہری کپڑوں سے مبرا۔ سب سے نیچے مظلوم آغا مرزا تراب علی کی لاش تھی۔ دوران خون اور سلسلہ تنفس بند ہوجانے کے باعث سب کے بدن پہلے تو اکڑ گئے تھے، اور پھر چوبیس گھنٹے یا اس سے زیادہ مدت گزرنے کے بعد دوبارہ نرم پڑ گئے تھے۔ لیکن اکڑن کے زمانے میں جگہ کی تنگی کے باعث سب لاشیں کچھ نہ کچھ شکستہ اور مسخ شدہ ہوگئی تھیں۔ بعض کے جبڑے ٹیڑھے ہوکر پھر سیدھے نہ ہوئے تھے۔ بعض کی آنکھیں کھلی رہ گئیں تھیں۔ بعض کی پشت، بعض کے ہاتھ پاؤں ٹیڑھے ہوکر رہ گئے تھے۔ سب کی زبانیں سیاہ باہر نکلی ہوئی۔ کچھ کی ناک سے، اور ایک کے ناک کان دونوں سے خون بہہ کر جم گیا تھا۔ لیکن کہیں کہیں مٹی میں ملی ہوئی کسی خراب شے کے باعث جمنے کے پہلے سڑنے لگا تھا۔ بعض کو عالم سکرات میں اپنے جسم پر قابو نہ رہا تھا اور انہوں نے اپنے کو گندا کرلیا تھا۔ گڑھے پر سے مٹی پوری طرح ہٹنے کے پہلے ہی بدبو کے بھبکے آنے لگے تھے اور جب لاشیں پوری طرح کھل گئیں تو خون اور بدن میں مقید ریاح اور باہر کی غلاظتوں کی بدبوئیں مل کر ناقابل برداشت ہوگئی تھیں۔
شاہ نور خان نے گھبراکر چاہا کہ لاشوں کو وہیں دوبارہ توپ دے، یا ان پر کچھ ترپال یا بھاری کپڑا وغیرہ اوڑھا دے۔ لیکن ذرا سے تامل نے اس پر ظاہر کر دیا کہ ایسا کرنا خلاف صلاح تھا۔ سیدیوں نے بھی اس کی طرف کچھ اس طرح دیکھا، گویا توقع کر رہے ہوں کہ ان لاشوں کے مناسب کفن دفن کا انتظام جلد کیا جائے گا۔ اس نے سیدی منعم سے، کہ وہ دونوں میں معمر تھا، پوچھا: ’’کیا انہیں یہیں دفن کردیا جائے؟‘‘۔
منعم نے سر ہلایا۔ ’’جمعدار جی۔ ابھی تو لاشیں خراب نہیں ہوئی ہیں، ہوا لگ کر فوراً ہی بگڑنے لگیں گی۔ مطلب یہاں گاڑنے کا یہ ہے کہ آپ کو بہت کچھ بندوبست کرنا ہوگا۔ کئی تگاڑے پانی، کئی تھان کفن، قبر کھودنے والے، جنازہ پڑھانے والا۔ ان چیزوں کا سینتاؤ کرتے کرتے بہت سماں نکل جائے گا، بدن بگڑ جائیں گے‘‘۔
’’تو کیا کروں، انہیں کسی طرح اٹھا لپیٹ کر رامپور لے جاؤں؟‘‘۔
’’نہ۔ نہ۔ میں یہ تھوڑی کہہ رہا ہوں۔ اس طرح تو جب آپ رامپور پہنچیں گے تو لاشیں نہیں سڑے گلے ٹکڑے ہی پہنچیں گے۔ آپ کسی کو بھیج کر فوراً قائم گنج سے کئی تھان کورا لٹھا اور چار پانچ پالکیاں منگوایئے۔ ساتھ ہی ساتھ قبرستان کوئی اور آدمی جاکر انتظام مردوں کے نہلوانے اور قبروں کے کھدوانے کا کرے۔ جب تک قبریں تیار ہوتی ہیں، اتنے وہی آدمی جنازے کا بندوبست کر لے گا۔ ادھر آپ لاشوں کو لٹھے میں اچھی طرح لپیٹ پالکیوں میں ڈال قائم گنج قبرستان لے چلیں‘‘۔
’’جی بات تو سیدی ٹھیک کہہ رہے ہیں‘‘۔ شاہ نور کا ایک ساتھی بولا۔ ’’اس طرح رات پڑتے پڑتے سب کام ہوجاویں گے انشاء اللہ‘‘۔
شاہ نور خان اور اس کے ساتھیوں نے اب تک اپنے اوپر قابو رکھا تھا۔ لیکن مردے جب قبر میں اتارے جانے لگے تو اسے بے اختیار رونا آگیا۔ ہائے کیا بے کسی کی موت تھی کہ گھر والوں میں کوئی بھی نہ تھا کہ آخری منزل تک دیکھ بھال کے پہنچا دیتا۔
تدفین کے دوسرے ہی دن شاہ نور خان اور ان کے ساتھی اپنے جانوروں کے ساتھ، اور منیر خان آغا مرزا صاحب شہید کے گھوڑے کو لے کر عازم رامپور ہوئے۔ کوچ کرنے کے پہلے شاہ نور خان نے کوتوال قائم گنج کو منیر خان، دونوں سیدیوں اور اپنا مکمل اظہار لکھوا کر التجا کی تھی کہ ہمارے مالک اور ان کے نوکروں کے ظالم قاتلوں کا پتہ لگا کر انہیں سولی دی جائے۔ لوٹا ہوا سامان ہمیں درکار نہیں، جو کچھ برآمد ہو سکے وہ سب کچھ کوتوالی کے ان بہادر دوڑ والوں کو انعام میں دیا جائے، جن کے ہاتھوں مجرمان ناہنجار کی گرفتاری عمل میں آوے۔ کوتوال نے وعدے تو بہت کئے، لیکن اس کی آنکھوں میں بے یقینی کی جھلک اتنی نمایاں تھی کہ کسی کو ان وعدوں پر اعتبار نہ آیا۔ بلکہ یوں کہیں کہ اگر دونوں سیدی معتبر اور معروف شخص نہ ہوتے تو کوتوال خود شاہ نور اور ان کے ساتھیں کو مقدمہ قتل میں ماخوذ کرنے کے بارے میں غور کر سکتا تھا۔
بدائوں اور آنولہ کے کچھ حصے نام کے لئے لکھنو کی شاہی عملداری میں، اور کچھ برائے نام بادشاہ دہلی کی عملداری میں تھے۔ ورنہ حقیقت یہ تھی کہ یہاں انگریزوں کا راج تھا اور کمشنر بریلی کا حکم سارے میں چلتا تھا۔ صاحبان انگریز نے جگہ جگہ پلس تھانے اور چوکیات قائم کر رکھی تھیں۔ ایسی پہلی ہی چوکی پر شاہ نور خان نے مفصل اظہار اپنا لکھوایا اور یہاں بھی وہی درخواست درج کرائی کہ جان کمپنی بہادر اپنے اقبال کو کام لا کر مجرمان ظالمان کو جلد از جلد پکڑ کر سولی دلوا دے۔ جو پلسدار قاتلوں کو پکڑے گا، اسے قرار واقعی بخشش نواب صاحب بہادر رامپور کی سرکار سے عطا ہو گی۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭