امت رپورٹ
ایم کیو ایم پاکستان کا دھاندلی کے نام پر الیکشن کمیشن کراچی کے دفتر کے سامنے پاور شو ناکام ہوگیا۔ لیبر ڈویژن اور بلدیاتی نمائندوں کی بڑی تعداد نہیں کو نکالا نہ جا سکا۔ چند سو افراد جمع کر کے شکست خوردہ رہنما الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے یا کراچی میں متحدہ کے ہارنے والے حلقوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کیا گیا۔ جبکہ اس پاور شو کی ناکامی پر عامر خان ذمہ داروں پر برستے رہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے مرکزی رہنمائوں نے تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی جانب سے آفرز ملنے پر اپنی مانگ بڑھانے کے لئے پاور شو ثابت کرنے کی کال دی اور کراچی کے شہریوں سے اپیل کی گئی کہ کراچی کے مینڈیٹ کے لئے ضرور شرکت کریں۔ تاہم الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اس کا احتجاج پھیکا رہا اور وہ چند سو افراد کو نکال سکی۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد جب نواز لیگ، ایم ایم اے اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتوں نے دھاندلی کا شور مچایا تو ابتدا میں متحدہ نت نے مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا۔ بعد ازاں جب تحریک انصاف نے مشکلات میں آنے کے بعد پکارا تو ان کا ساتھ دینے کا وعدہ کر لیا اور ایم ایم ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی اے پی سی میں جانے سے انکار کر دیا۔ ایک طرف نواز لیگ کے بجائے تحریک انصاف سے بات چیت شروع کردی تو دوسری جانب دھاندلی کا شور بھی مچانا شروع کردیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان نے کراچی کے دو رہنماؤں فردوس شمیم نقوی اور عمران اسماعیل کو ٹاسک دیا ہے کہ متحدہ پاکستان نے جو مطالبات پیش کئے ہیں، ان کے حوالے سے مسودے تیار کیے جائیں اور تحریری صورت میں یہ مطالبات بھیجے جائیں۔ ذرائع کے بقول تحریک انصاف کراچی کے بعض رہنما ایم کیو ایم کو ساتھ ملانے کے خلاف ہیں اور وہ متحدہ کو پٹا ہوا مہرہ قرار دے رہے ہیں۔ ان رہنمائوں کا پارٹی چیئرمین کو کہنا ہے کہ اگر متحدہ کو ساتھ ملایا گیا تو اس میں دوبارہ ہوا بھر جائے گی۔ تاہم تحریک انصاف کی مجبوری ہے کہ وہ ایم کیو ایم کو کو ساتھ رکھے۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر بھی متحدہ سے بیک ڈور رابطے کیے گئے کہ اگر وہ وفاق میں پی ٹی آئی کا ساتھ دے گی تو سندھ میں پی پی ان کو اپنے ساتھ نہیں ملائے گی۔ متحدہ کو پی پی کی جانب سے سندھ حکومت میں شامل ہونے کی صورت میں وزارتیں دینے کا لالچ دیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ متحدہ تین بڑی پارٹیوں کی جانب سے آفرز ملنے پر پھیل گئی تھی۔ جبکہ دوسری جانب کراچی کے عوام کو یہ باور بھی کرانا تھا کہ ووٹ نہ دینے کے باوجود متحدہ اب بھی پاور فل ہے۔ ساتھ ہی تینوں پارٹیوں کے سامنے بھی پاور شو کر کے اپنی مانگ بڑھانا چاہتی تھی۔ متحدہ کے ہارے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلی کے امیدواروں اور رہنماؤں کو موقع نہیں مل رہا تھا کہ اپنی دل کی بھڑاس نکال سکیں۔ چار روز قبل متحدہ پاکستان نے کھل کر اعلان کیا کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور نتائج کو مسترد کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا جائے گا۔ شہر بھر میں متحدہ کے ذمہ داروں اور کارکنوں کے ساتھ ہمدردوں اور شہریوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اس اپنا مینڈیٹ چھینے جانے پر احتجاج میں بھرپور شرکت کریں۔ ذرائع نے بتایا کہ اس اعلان کے بعد عامر خان، فیصل سبزواری اور دیگر رہنمائوں نے لیبر ڈویژن، اے پی ایم ایس او اور بلدیاتی نمائندوں کے ساتھ میٹنگ کی تھی، جس کے بعد الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے احتجاجی دھرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر باقاعدہ مہم بھی چلائی گئی کہ جمعرات کی دوپہر ایک بجے شرکا احتجاج کیلئے جمع ہو جائیں۔ دوسری جانب دوپہر بجے تک پولیس کی بھاری نفری نے الیکشن کمیشن کے دفتر کے سامنے اطراف کے راستے بند کر دیئے تھے اور واٹر کینن لا کر کھڑی کر دی گئی۔ پاسپورٹ آفیس اور صدر سے آنے والی مرکزی شاہراہ کو بھی رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس اہلکاروں کو تعینات کر دیا گیا تھا۔ احتجاج کیلئے متحدہ نے ایک منی ٹرک، نمبر JX-7803 پر اسٹیج بنایا۔ جس کے دونوں طرف بڑے بڑے بینرز لگے تھے کہ الیکشن کمیشن دھاندلی کا جواب دے۔ ڈھائی بجے کے قریب لیبر ڈویژن کے چند کارکن آئے، جس کے بعد سڑک پر دریاں بچھادی گئیں۔ ان کارکنان کو ٹرک سے متحدہ کے جھنڈے دیئے جاتے رہے۔ تین بجے تک شرکا کی تعداد قابل ذکر نہ ہوئی تو ذمہ داران نے بوکھلا کر ایک ایک کارکن کو فون کرنا شروع کردیا۔ اس کے باوجود بمشکل تین چار سو شرکا جمع ہوسکے، جن میں کم و بیش اسّی خواتین تھیں۔ جنہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینے کا مطالبہ درج تھا۔ جبکہ دھاندلی ہونے اور جان بوجھ کر جیت کو ہار میں تبدیل کرنے کا تحریر تھا۔ احتجاج میں متحدہ کے رہنما خالد مقبول صدیقی، فیصل سبزواری، کنور نوید جمیل، نسرین جلیل، محفوظ یار خان، رئوف صدیقی اور دیگر شریک تھے۔ تاہم شرکا کی کم تعداد دیکھ کر عامر خان بھڑک اٹھے اور انہوں نے ذمہ داروں کو احتجاج کے بعد بہادرآباد مرکز میں آنے کا حکم دیا۔ رہنمائوں کا خطاب شروع ہونے سے پہلے پولیس نفری کی کمانڈ کرنے والے اے ایس پی حمزہ نے فیصل سبزواری سے کہا کہ آپ نے جس دفتر کے سامنے ڈیرہ لگایا ہے، اس کے ذمہ داروں نے کہا ہے کہ یہاں سے ٹرک اور پنڈال ہٹا دیں، ورنہ مقدمہ درج کرائیں گے۔ اس پر فاروق ستار نے کہا کہ ان سمیت تمام رہنماؤں کو سیکورٹی رسک ہے، اس لئے چوراہے یا دیگر جگہوں پر نہیں جا سکتے۔ اب مرضی ہے کہ مقدمہ کرلیں۔ پنڈال سڑک پر بنایا گیا تھا اور شدید دھوپ کی وجہ سے لوگ اطراف میں درختوں کے نیچے موجود تھے۔ رہنما بار بار شرکا کو پنڈال میں بلواتے رہے۔ الیکشن میں ہارنے والے رہنما رئوف صدیقی، محفوظ یار خان، اور دیگر نے خطاب کیا۔ فاروق ستار سمیت دیگر رہنماؤں نے دل کی بھڑاس نکالی اور الیکشن کمیشن، الیکشن کمشنر، نگران حکومتِ سندھ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ جبکہ کم شرکا پر عامر خان اور خالد مقبول صدیقی کے موڈ آف تھے اور انہوں نے خطاب نہیں کیا۔ اس ناکام احتجاج کے دوران پولیس اور رینجرز نے اطراف کی دکانیں کھلی رکھی تھیں۔ جبکہ دیکھا گیا کہ بعض دکاندار احتجاج میں چند شرکا کو دیکھ کر متحدہ رہنمائوں کا مذاق ارارہے ہیں۔
٭٭٭٭٭