بدترین شکست نے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کا وجود خطرے میں ڈال دیا

الیکشن میں شکست کے بعد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کی حالت قابل رحم ہے، بلکہ اس کے وجود کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ قابل رحم یوں کہ الائنس کے شکست خوردہ ارکان بند کمروں میں برملا یہ کہتے دکھائی دے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا، تاہم عوام میں اپنے دل کی یہ بات کہنے سے وہ معذور ہیں۔ جی ڈی اے سندھ میں پیپلز پارٹی کو کائونٹر کرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ لیکن شکاری خود شکار ہو گیا۔ یہ تاثر عام تھا کہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے۔ اس تاثر کو گہرا کرنے میں خود الائنس میں شامل بعض رہنمائوں کا ہاتھ بھی تھا، جو اپنے قابل اعتماد لوگوں کو بڑے فخر سے یہ بات بتایا کرتے تھے۔ الیکشن کمیشن میں بطور سیاسی پارٹی رجسٹرڈ ہونے سے پہلے اور بعد میں جی ڈی اے نے کئی چھوٹے بڑے جلسے کئے اور دعویٰ کیا کہ اس بار سندھ سے پیپلز پارٹی کا صفایا کر دیں گے اور صوبے میں ان کی مخلوط حکومت ہوگی۔ جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے الیکشن ہارنے والے ایک سینئر سیاستدان کا دعویٰ ہے کہ اس اعتماد کے پیچھے وہ تھپکی کار فرما تھی، جو الیکشن سے ایک روز پہلے تک الائنس کے کرتا دھرتائوں کو دی جاتی رہی۔ یہ سب کچھ بتاتے ہوئے سینئر سیاستدان کی آواز بھرا گئی۔ کہنے لگے… ’’مجھے خود الیکشن سے ایک روز پہلے تک ’’سب اچھا ہے‘‘ کی تسلی دی جا رہی تھی۔ اس کے باوجود مجھے کچھ تشویش تھی۔ اس تشویش کی وجہ یہ تھی کہ جس حلقے سے میں الیکشن لڑ رہا تھا، وہاں پی ٹی آئی اور تحریک لبیک پاکستان کے امیدوار بھی میدان میں تھے۔ مجھے صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہ دونوں امیدوار میرے اچھے خاصے ووٹ کاٹ دیں گے اور اس کا سارا فائدہ پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ہوگا۔ اس تشویش کا اظہار کیا تو دلاسہ ملا کہ فکر مند نہ ہوں اور سکون سے سو جائیں۔ ساری رات جیت کے خواب دیکھتا رہا۔ صبح سو کر اٹھا تو یہ خواب کرچی کرچی تھے‘‘۔ مذکورہ سیاستدان کے بقول صرف اس کے حلقے میں ہی نہیں، بلکہ سندھ کے بیشتر حلقوں میں پیپلز پارٹی کو فری ہینڈ دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو الائنس پیپلز پارٹی کو کائونٹر کرنے کے لئے بنایا گیا تھا، اس کا الٹا نتیجہ نکلا اور پیپلز پارٹی کو گزشتہ الیکشن سے بھی زائد سیٹیں مل گئیں۔ جبکہ گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کو قابل ذکر نشستیں ملنا تو دور کی بات، الائنس میں شامل پارٹیوں کو اپنی ان سیٹوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، جو 2013ء کے الیکشن میں اسے بغیر تھپکی کے مل گئی تھیں۔ حتیٰ کہ الائنس میں شامل کئی منجھے ہوئے سیاستدانوں کو اپنے آبائی حلقوں میں بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے ان ہی سیاستدانوں میں سے ایک کا الزام ہے کہ نواز شریف کو سنائی جانے والی سزا کے بعد تبدیل ہونے والے سنیاریو نے گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے تخلیق کاروں کا ذہن بدلا۔ نون لیگ سے دور رکھنے کے لئے پیپلز پارٹی کو توقع سے زیادہ سیٹیں دلا دی گئیں۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ڈیمو کریٹک الائنس کو ہوا اور وہ اپنی حقیقی سیٹوں سے بھی محروم ہو گیا۔ اس سیاستدان کا الزام ہے کہ ایک ڈیل کے تحت پیپلز پارٹی کو سندھ میں پہلے سے بھی زیادہ سیٹیں دلائی گئیں۔ تاہم کھلے عام یہ بات کہنے سے موصوف گھبراتے ہیں۔ اسی طرح حیدرآباد سے الیکشن ہارنے والے جی ڈی اے کے ایک اور رہنما کے بقول جی ڈی اے اپنے ’’حامیوں‘‘ کی بے وفائی کا شکار ہوا۔ اور یہ کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کیا جانے والا غیر اعلانیہ این آر او گرینڈ الائنس کی شکست کا سبب بنا۔ چند روز پہلے جی ڈی اے کے ایک شکست خوردہ رہنما کی ڈومیسٹک فلائٹ میں پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفی کمال سے اتفاقی ملاقات ہو گئی۔ اس موقع پر موجود ذریعے کے بقول ’’تو پکارے ہائے گل میں پکاروں ہائے دل‘‘ والا منظر تھا۔
گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس، فنکشنل لیگ کی سربراہی میں بنایا گیا تھا۔ صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف پیر پگارا اس کے سربراہ ہیں۔ فنکشنل لیگ کے علاوہ الائنس میں جتوئی خاندان کی نیشنل پیپلز پاٹی، ایاز لطیف پلیجو کی قومی عوامی تحریک، صفدر علی عباسی کی پیپلز پارٹی (ورکرز) اور چند دیگر چھوٹے گروپ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دو سابق وزرائے اعلیٰ غوث علی شاہ اور ارباب غلام رحیم، مظفر حسین شاہ، عرفان اللہ مروت اور پیپلز پارٹی سے بغاوت کرنے والے ذوالفقار مرزا اور ان کی اہلیہ فہمیدہ مرزا بھی جی ڈی اے کا حصہ بنیں۔ تاہم ان بڑے ناموں اور چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد، قومی اسمبلی کی صرف دو سیٹیں، جبکہ صوبائی کی 11 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ ان دو سیٹوں میں سے ایک فہمیدہ مرزا کو ملی۔ مرزا فیملی پانچ نشستوں پر الیکشن لڑ رہی تھی۔ اسے صرف دو پر کامیابی ملی۔ ایک قومی اسمبلی کی نشست پر ذوالفقار مرزا کے بیٹے حسام مرزا کو شکست فاش ہوئی اور صوبائی کی دو نشستوں سے ذوالفقار مرزا اور فہمیدہ مرزا ہار گئیں۔ قومی اسمبلی کی دوسری نشست فنکشنل لیگ کے غوث بخش مہر حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ باقی فنکشنل لیگ کے سربراہ سمیت تمام بڑے ناموں میں سے کوئی بھی قومی اسمبلی کی نشست حاصل نہ کر سکا۔ حیرت انگیز طور پر پگارا لیگ کو اس کے سیاسی گڑھ سانگھڑ میں بھی شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ جبکہ اپنے آبائی حلقے نوشہرو فیروز سے مرتضیٰ جتوئی ہار گئے۔ پچھلے دور میں وہ وفاقی وزیر تھے۔ تھرپارکر میں ارباب غلام رحیم کا جادو نہ چل سکا۔ خیرپور میں غوث علی شاہ چاروں شانے چت ہو گئے۔ کراچی میں عرفان اللہ مروت کو شکست ہوئی۔
فنکشنل لیگ کے لئے یہ بڑا دھچکا ہے کہ اپنے مضبوط سیاسی گڑھ ضلع سانگھڑ کی 6 صوبائی سیٹوں میں سے اس کے ہاتھ صرف 3 آ سکیں۔ نصف درجن کے قریب چھوٹی بڑی پارٹیوں اور کئی بڑے ناموں پر مشتمل جی ڈی اے کو سندھ میں کل 11 سیٹیں ملی ہیں، جبکہ اس کے مقابلے میں 2013ء کے الیکشن میں تن تنہا فنکشنل لیگ 9 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی تھی۔ اسی طرح تازہ الیکشن میں جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے فنکشنل لیگ کے ہاتھ قومی اسمبلی کی صرف ایک نشست آئی ہے، جبکہ گزشتہ الیکشن میں بغیر ’’سپورٹ‘‘ اس نے سنگل پارٹی کے طور پر قومی اسمبلی کی 4 سیٹیں جیتی تھیں۔
ادھر جی ڈی اے کے اندرونی ذرائع نے بتایا کہ اس بدترین شکست کے بعد الائنس کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ تاہم ہو سکتا ہے کہ اسے اگلے برس ہونے والے بلدیاتی الیکشن تک زندہ رکھا جائے۔ ذرائع کے بقول الائنس کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے ارکان قومی اسمبلی غوث بخش مہر اور فہمیدہ مرزا نے پی ٹی آئی کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اپنے قریبی حلقوں سے اس کا ذکر بھی کیا ہے۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ اس کے عوض ان دونوں میں سے کسی کو کوئی وزارت ملے گی یا نہیں۔ ایک قریبی ذریعے کے بقول اس نے غوث بخش مہر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کی سپورٹ کے عوض کوئی وزارت حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ ذرائع کے مطابق جی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے کامیاب ہونے والے ان دونوں ارکان قومی اسمبلی کے پاس حکومت میں شامل ہو جانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں۔ اگر انہیں وزارت نہیں بھی ملتی تو کم از کم ترقیاتی فنڈز تو حاصل ہو جائیں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حکومت کا حصہ بن کر وہ پیپلز پارٹی کے ردعمل سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ادھر ذرائع کے مطابق الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف آج جمعہ کو جی ڈی اے نے احتجاج کا اعلان تو کیا ہے، لیکن یہ محض رسمی احتجاج ہو گا۔ اس بات کا امکان نہیں کہ الائنس، اپوزیشن کے ساتھ جا ملے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment