میاںاصغر حسین صاحبؒ کا مکان دارالعلوم دیوبند سے کافی فاصلے پر محلے میں تھا۔ شہر سے باہر باہر سے آنے کا دستور تھا۔ راستے میں کچھ جنگل بھی پڑتا تھا۔ دارالعلوم میں تشریف لانے کے بعد معمول یہ تھا کہ اپنے کمرے میں آ کر بیٹھتے تھے۔ اس کمرے میں آپ کی تصانیف بھی رکھی ہوئی تھیں۔ مفتی محمد شفیع صاحبؒ بھی فارغ ہو کر اسی کمرے میں آجاتے تھے۔
ایک روز میاں صاحبؒ دکان سے باہر تشریف لائے تو مفتی محمد شفیع صاحبؒ سے فرمانے لگے : ’’آج ہم ایک عجیب تماشا دیکھ کر آئے ہیں۔‘‘
مفتی محمد شفیع صاحبؒ فوراً ان کی طرف متوجہ ہو گئے تو آپؒ نے فرمایا:
’’محلہ کوٹلاں سے باہر چند چھوٹی چھوٹی لڑکیاں بیٹھی آپس میں لڑ رہی تھیں۔ ایک دوسرے کو مار رہی تھیں۔ میں قریب پہنچا تو پتا چلا کہ یہ سب مل کر جنگل سے گوبر اٹھا کر لائی ہیں، وہ گوبر انہوں نے ایک جگہ ڈھیر کر دیا ہے، اب اس گوبر کی تقسیم پر ان کا جھگڑا ہو رہا ہے، گوبر کے حصے کی کمی بیشی پر لڑنے مرنے پر تلی ہوئی ہیں۔‘‘
پہلی نظر میں مجھے ہنسی آئی کہ یہ کس گندی اور بے قیمت چیز پر لڑ رہی ہیں، ان کی کم عقلی اور بچکانہ پن پر ہنستے ہوئے ہم انہیں چھڑانے لگے، ایسے میں حق تعالیٰ نے دل میں بات ڈالی کہ ان کی بے وقوفی پر ہنسنے والے جو دنیا کے مال و دولت پر، جاہ و منصب پر لڑتے ہیں… اگر انہیں دیکھنے والی آنکھ حاصل ہو جائے تو یقین کر لیں کہ ان سب عقل مندوں اور دانش وروں کو سب لڑائیاں بھی ان بچیوں کی جنگ سے کچھ زیادہ چیز کے لئے نہیں ہیں… فنا ہو جانے والی اور چند روز میں قبضے سے نکل جانے والی یہ سب چیزیں بھی آخرت کی نعمتوں کے مقابلے میں گوبر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔
حدیث شریف میں ہے:
’’دنیا ایک مردار جانور ہے اور اس پر جھپٹنے والے کتے ہیں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭