سورئہ نجم مکہ میں نازل ہوئی اور اس کی باسٹھ آیتیں ہیں اور تین رکوع۔
شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہربان، نہایت رحم والاہے۔
قسم ہے تارے کی جب گرے، بہکا نہیں تمہارا رفیق اور نہ بے راہ چلا اور نہیں بولتا اپنے نفس کی خواہش سے، یہ تو حکم ہے بھیجا ہوا، اس کو سکھلایا ہے سخت قوتوں والے نے زور آور نے، پھر سیدھا بیٹھا اور وہ تھا اونچے کنارے پر آسمان کے، پھر نزدیک ہوا اور لٹک آیا، پھر رہ گیا فرق دو کمان کے برابر یا اس سے بھی نزدیک، پھر حکم بھیجا اللہ نے اپنے بندے پر جو بھیجا، جھوٹ نہیں کہا رسول کے دل نے جو دیکھا، اب کیا تم اس سے جھگڑتے ہو اس پر جو اس نے دیکھا اور اس کو اس نے دیکھا ہے اترتے ہوئے ایک بار اور بھی سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اس کے پاس ہے بہشت آرام سے رہنے کی، جب چھا رہا تھا اس بیری پر جو کچھ چھا رہا تھا، بہکی نہیں نگاہ اور نہ حد سے بڑھی، بے شک دیکھے اس نے اپنے رب کے بڑے نمونے۔
خلاصۂ تفسیر
قسم ہے ستارے کی جب وہ غروب ہونے لگے (یعنی کوئی بھی ستارہ ہو اور اس قسم میں مضمون جواب قسم مَا ضَلَّ… الخ کے ساتھ ایک خاص مناسبت ہے، یعنی جس طرح ستارہ طلوع سے غروب تک اس تمام تر مسافت میں اپنی باقاعدہ رفتار سے ادھر ادھر نہیں ہوا، اسی طرح آپؐ اپنی عمر بھر ضلال و غوایت سے محفوظ ہیں اور نیز اشارہ ہے اس طرف کہ جیسے نجم سے ہدایت ہوتی ہے، اسی طرح آپؐ سے بھی بوجہ عدم ضلال و عدم غوایت کے ہدایت ہوتی ہے اور چونکہ ستاروں کے وسط سماء میں ہونے کے وقت کسی سمت کا اندازہ نہیں ہوتا، اس لئے اس وقت ستارے سے راستے کا پتہ نہیں لگتا، اس لئے اس میں قید لگائی غروب کے وقت کی اور گو قرب من الافق طلوع کے وقت بھی ہوتا ہے لیکن غروب میں یہ بات زیادہ ہے کہ اس وقت طالبانِ اہتداء اس کو غنیمت سمجھتے ہیں، اس خیال سے کہ اگر استدلال میں ذرا توقف کیا تو پھر غائب ہو جاوے گا، بخلاف طلوع کے کہ اس میں بے فکری رہتی ہے، پس اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ حضور اقدسؐ سے ہدایت حاصل کر لینے کو غنیمت سمجھو اور شوق سے دوڑو، آگے جواب قسم ہے) (جاری ہے)
٭٭٭٭٭