پانچویں دن کی شام کو سوگواروں کا یہ قافلہ رامپور پہنچا۔ اس رات رامپور کے کئی گھروں سے تادیر نالہ و شیون بلند ہوتا رہا۔ کئی گھروں میں کوئی سویا نہیں۔ وزیر کو سکتہ سا ہو گیا۔ وہ کئی راتیں دروازے کی طرف ٹکٹکی باندھے رہی کہ میرے آغا صاحب آتے ہی ہوں گے۔ اسے کچھ خبر نہ ہوئی کہ اس کی چوڑیاں کب ٹھنڈی کی گئیں اور کب اسے سفید ڈوپٹہ اڑھایا گیا۔
1844ء شہر رامپور، نواب سید محمد سعید خان کا دور سعادت نشان و اقبال آسمان، سج دھج میں بازاروں کی چہل پہل میں، رونق بزم و کوچہ و برزن میں، محافل ذکر و مکاتب فکر میں، حلقہ ہائے درس و تعلیم میں، انجمن آرائی، شعر گوئی و داستان سرائی میں، رامپور رشک دہلی و لکھنئو بنا چاہتا تھا۔ بس گنجان آبادیوں کے لحاظ سے لکھنٔو، اور عمارات کے حسن و وسعت کے لحاظ سے دہلی ابھی بہت آگے تھا۔ نجیب الدولہ اور نواب فیض اللہ خان اور حافظ الملک کے زمانوں میں تعمیر کی ہوئی، روہیلوں کی عمارات نجیب آباد، بجنور، میرن پور کٹرہ، سہسوں، بدائوں اور بریلی میں کچھ اچھے احوال میں اور کچھ شکستہ حال میں عظمت و شوکت رفتہ کے قصے زبان حال سے پڑھ رہی تھی۔ ترقی پذیری، امن و امان، مرفہ الحالی اور چمک دمک کے اعتبار سے قرب و جوار کے تمام شہر آنولہ، سنبھل، امروہہ، حسن پور، شاہ آباد ، حتیٰ کہ مراد آباد اور بریلی بھی رامپور کے آگے ماند پڑتے نظر آتے تھے۔ نواب فیض اللہ خان عرش منزل کے وقتوں (1774ء تا 1794 ) سے ہی پورا رامپور دارالامن و دارالعلم بن گیا تھا۔ دور دور سے مختلف قومیتوں کے لوگ یہاں آنے اور آباد ہونے لگے تھے۔ منو لال مورخ رامپوری کے قول کے مطابق رامپور میں کوئی پانچ سو علما و فضلا اس وقت ایسے تھے جنہیں خزانہ ریاست سے مشاہرہ معقول ملتا تھا اور سرکاری خدمت کی کوئی شرط نہ تھی۔ انہیں آزادی تھی کہ سرکاری مدرسے میں پڑھائیں یا اپنی قیام گاہوں پر علم کے پیاسوں کی تشنگی بجھائیں۔ اصفیا اتقیا میں دہلی اور بیرون ملک سے آ کر یہاں رہ جانے والوں میں حافظ جمال اللہ، شاہ درگاہی، شاہ بغدادی، شاہ جمال الدین کے سوا بھی کئی نامی ہستیوں نے رام پور کو اپنے قدوم با برکت سے سرسبز و پر میمنت کیا۔ نواب عرش منزل کے بنا کردہ کتب خانے اور مدرسے نے بہت شہرت پائی۔ کتب خانے کو بعد میں ’’رضا لائبریری‘‘ اور مدرسے کو بعد میں ’’مدرسہ عالیہ‘‘ کہا گیا۔ نواب فیض اللہ خان نے بحرالعلوم ملا عبدالعلی فرنگی محلی اور ملا محمد حسن فرنگی محلی کو لکھنئو سے بلوا کر مدرسے میں معلم اور صدر معلم مقرر کیا۔ جلد ہی رامپور میں ممالک غیر کے بھی طلبا تحصیل علم و کمال کے لئے آنے لگے اور رامپور کو عموماً بخارائے ہند کہا جانے لگا۔ نواب عرش منزل کو شعر و سخن سے کچھ طلوع نہ تھا۔ یہ کمی ان کے چھوٹے بھائی نواب محمد یار خان المتخلص بہ امیر نے ٹانڈہ میں اپنے چھوٹے سے دربار میں پوری کر دی تھی۔ قائم، مصحفی، قدرت اللہ شوق، فدوی لاہوری، کبیر علی کبیر سنبھلی جیسے کملائے روزگار وہاں چند مدت کے لئے جمع ہو گئے تھے۔
سقوط ٹانڈہ و آنولہ نے محمد یار خان امیر کے ارکان بزم کو اوراق خزانی کی طرح منتشر کر دیا تو نواب عرش منزل نے محمد یار خان کو رامپور بلوالیا۔ ان کے ساتھ استاد قائم چاند پوری، کبیر علی کبیر سنبھلی اور فلک آنولہ کے کچھ دوسرے ستارے بھی رامپور آئے اور یہیں کے ہو رہے۔ نواب احمد علی خان رند کا طویل دور حکومت یوں بہت قابل ذکر نہ تھا، لیکن علم اور شعر و شاعری کا چرچا رامپور میں ویسا ہی رہا۔ بلکہ روز افزوں ہوا۔ نواب سید محمد سعید خان اگرچہ مذہباً لکھنئو کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے، لیکن انہوں نے رامپور کو لکھنئو کا ضمیمہ بنانے کے بجائے ایک الگ رامپوری رنگ کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ اس رنگ میں مغل آب و تاب اور صولت و جزالت کی جھلک زیادہ تھی، لکھنئو کی باریکیوں اور مذہبی ثقثف کا پر تو کم از کم تھا۔
یہ سب تھا، لیکن آغا مرزا تراب علی کی بے وقت موت پر نالہ کناں ہونے والی وزیر خانم، ان کی بلبل شیدا، وہ گل گلزار محبوبی اور معطر کن حدیقہ عاشقی و معشوقی، رام پور میں نہ تھی۔ آغا تراب علی کے بعد ان کی حویلی جو انہیں نواب کی طرف سے ملی تھی، حسب قاعدہ قدیم دربار نورانی کی ملکیت میں واپس چلی گئی۔ آغا تراب علی کے قریبی متعلقین میں صرف ایک بیوہ بہن اور بوڑھی بیوہ پھوپی تھی۔ وزیر بھی اپنا بچہ لے کر ان کے ساتھ آغائے مبرور کے پرانے گھر میں منتقل ہوگئی۔ نواب مرزا نے بہتیرا چاہا کہ ماں کے دامن سے لگے رہیں، لیکن آغا مرزا تراب علی مرحوم کے چھوٹے سے آبائی گھر کو دیکھ کر وزیر نے سخت اصرار کیا کہ آپ اپنی منجھلی خالہ کے پاس چلے جائیں اور وہیں رہیں۔ قدیم طرز کی اینٹوں اور کچ سے بنے ہوئے اس گھر میں تنگ سی ڈیوڑھی کے آگے آنگن تھا، جس کے دو طرف دو دو حجرے یا کمرے تھے اور سامنے ایک دالان اور پھر سہ دری۔ ڈیوڑھی کے دونوں طرف ایک ایک باورچی خانہ اور جائے ضرور، کل اتنی ہی مکانیت تھی۔ آنگن میں چمن، کنویں، نہر یا حوض کا کوئی مذکورہ نہ تھا۔ پانی کے لئے دوسرے عام گھروں کی طرح بہشتی مقرر تھا، جو کوسی ندی کا پانی صبح و شام لا کر بھر دیا کرتا تھا۔
زندگی نے فوراً اپنا رنگ بدل لیا تھا۔ نوکروں، مامائوں کی وہ کثرت نہ تھی۔ دروازے کی بہل، رتھ، گھوڑے، پالکی، سب پرانی حویلی کے ساتھ چھٹ گئیں۔ تعزیت کے دنوں اور سوئم چہلم کی مجلسوں کے سوا آنے جانے والوں کا تانتا ٹوٹ کر برائے نام رہ گیا۔ حبیبہ اور راحت افزا کا ساتھ نہ ہوتا تو وزیر خانم شاید کنویں میں کود کر جان دے دیتی۔ ایک تو آغا صاحب کی موت کا غم اور موت بھی کیسی موت، گویا مرنے والوں کا خدا ہی نہ تھا یا مارنے والوں کو موت ہی نہ آنی تھی، اور تس پر ننھے بچے کا پالنا پوسنا، جس کے لئے اب دائی کھلائی یا ماما چھوچھو جیسی کوئی نوکرانی نہ تھی۔ اور پھر سسرال کی بیوہ نند اور پھوپھیا ساس کی چشم نمائیاں اور اشاروں کنایوں میں بار بار یہ ظاہر کرنا کہ چھوٹی بیگم ان کی نظر میں آغا صاحب کی منکوحہ کا بھی درجہ نہ رکھتی تھی۔ بجا کہ وہ آغا صاحب کی نکاحی بیوی تھی لیکن، پھوپھیا ساس کے بقول ایسیوں کے نکاح کیا اور ان کے ساتھ قول و قرار کیا، اور ان بنو کا تو حال ہی دیگر تھا۔ جس کا ہاتھ انہوں نے پکڑا اسے پھر ملک الموت نے سیدھا جا پکڑا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭