حافظ شیرازی کے مزار سے واپسی پر میں شیراز شہر کے معلوماتی ٹرپ پر نکل کھڑا ہوا۔ نہیں معلوم کس کس علاقے میں آوارہ گردی کی، مگر جن اشیا نے میرے دل کو کلک کیا اور جن مقامات کی تصویر کشی پر مجبور ہوا وہ حسب ذیل ہیں:
1۔ علامہ اقبال کے نام پر قائم بچوں کا ایک اسکول جس کا نام ہے ’’دبیرستان علامہ اقبال لاہوری‘‘ ہے۔
2۔ ایک بڑے پبلک پارک کے گیٹ کے ساتھ ایک بلند فولادی فریم پر لگی شہدائے آزادی کی آٹھ عدد تصاویر۔
3۔ ساتھ ساتھ تعمیر شدہ دو خوبصورت سرکاری عمارتیں۔
4۔ ایک عالی شان کلچرل سینٹر جہاں ادبی راتیں منعقد کی جاتی ہیں۔
5۔ شیراز کی ایک خوبصورت عالی شان اور آباد مسجد۔
6۔ ایک بزرگ شہید آزادی کی تصویر جو کسی بلند عمارت کی دیوار پر بنائی گئی تھی۔
7۔ شیراز کا ایک اسکول جس کی چہار دیواری پر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے چند اقوال اور ان کا انگلش ترجمہ درج تھا۔
8۔ شیراز کا ایک نجی نرسنگ ہوم (اسپتال)
9۔ صوبہ فارس کی عدالت (داد گستری)۔
10۔ زندان کریم خان جو آج کل جیل نہیں، بلکہ اغلباً ایک تاریخی عجائب گھر میں تبدیل کر دی گئی ہے اور جس میں داخلے کا ٹکٹ ہے۔ کیونکہ خارجیوں کے لئے ٹکٹ کی قیمت بہت زیادہ تھی اس وجہ سے اس کو اندر سے نہ دیکھ سکا۔
شیراز میں اپنے ذمہ میں نے جو کام لگائے تھے وہ بفضل تعالیٰ مکمل ہوچکے تھے اور اب میں شیراز کو الوداع کہنے کے لئے تیار تھا۔ مگر اس سے پہلے کہ میں شیراز سے کوچ کروں، فارسی کے عظیم غزل گو شاعر حافظ شیرازی کے تعارف کا کچھ حق ادا ہو جائے کہ اس سے پیشتر جو لکھا گیا ہے وہ مجھ حقیر کے خیال میں ناکافی ہے۔
یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں بلکہ قابل غور ہے کہ جو زمانہ سعدی شیرازی کے انتقال کا ہے، لگ بھگ وہی زمانہ حافظ شیرازی کی پیدائش کا ہے۔ یعنی قدرت نے شیراز سے ایک بڑا شاعر چھینا تو ساتھ ہی ایک بڑا شاعر دے بھی دیا۔ ساتھ ہی یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حافظ کو سعدی کا زمانہ ملا۔ بالفاظ دیگر ان کی پیدائش کے زمانے میں سعدی کا طوطی بول رہا تھا۔
ایسے میں غزل گوئی میں جگہ بنانا اور ایسی جگہ بنانا کہ دنیا ’’غزل سرائے بزرگ زبان فارسی‘‘ کہہ دے اور ان کی غزلیات کے مجموعے کو مجموعہ عالی ترین کلام فارسی کہا جائے، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حافظ نے کسی کا قصیدہ لکھا نہ کسی کے دربار میں گئے، نہ دنیا کی سیر کی۔ صرف شیراز ہی میں رہے۔ مگر ان کی شہرت پوری مسلم دنیا میں پھیل گئی اور ان کے اشعار عوام و خواص، بادشاہوں اور غلاموں سب کی زبان پر ان کی جوانی کے زمانے ہی میں رواں ہوگئے تھے۔ جب امیر تیمور کو سولہ سال کی عمر میں سمر قند کے شمال میں آباد قرہ ختا قبیلے کی ایک لڑکی سے عشق ہو جاتا ہے تو اس کی زبان پر بے اختیار حافظ شیرازی ہی کا یہ شعر آتا ہے۔
’’مرا عشق سیہ چشماں ز دل بیروں نخواہد شد
قضائے آسمان است ایں و دیگر گوں نخواہد شد‘‘
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ حافظ کی عمر بھی اس وقت تقریباً 40 سال تھی اور وہ مستقل شیراز میں ہی قیام پذیر تھے اور شیراز اور ازبکستان میں تیمور کے شہر کیش کا براہ راست فاصلہ 2100 کلو میٹر ہے۔ اس زمانے میں پیدل یا گھوڑے کے راستے کے مطابق یہ فاصلہ کم از کم 3000 کلو میٹر ہوگا۔ یعنی حافظ کی جوانی ہی میں حافظ کا کلام اور اس کی مقبولیت اتنا طویل فاصلہ طے کرچکے تھے۔
حافظ شیرازی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کی بابت ہمیں شیخ سعدی کے برعکس کوئی تفصیلی معلومات نہیں ملتیں۔
البتہ شیراز کی فتح پر امیر تیمور سے حافظ کی خاصی تفصیلی ملاقات کی روداد سے ہمیں حافظ کی علمیت، طرز استدلال، پختہ مزاجی اور بے باکی کی بابت خاصی اہم معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ مذکورہ ملاقات کی تفصیل خود تیمور نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں تحریر کی ہے۔ میں حقیر یہ روداد جس کو امیر تیمور نے تحریر کی ہے، ذیل میں نقل کر رہا ہوں اور یہ اقتباس سیارہ ڈائجسٹ کی کتاب ’’میں ہوں تیمور‘‘ سے ماخوذ ہے۔ مگر اس سے پہلے کچھ امیر تیمور کے بارے میں:
امیر تیمور کے بارے میں مختصراً میں یہ عرض کروں گا کہ وہ جسمانی اور دماغی صلاحیتوں کے اعتبار سے ایک انتہائی غیر معمولی انسان تھا۔ اس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اس کے زمانے میں پوری معلوم دنیا میں جسمانی، علمی، بہادری، قوت فیصلہ اور انتظامی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کا کوئی ہمسر تھا اور نہ اب تک پیدا ہوا ہے۔ اس کا حافظہ ناقابل یقین حد تک قوی تھا۔ قوت حافظہ و دیگر دماغی صلاحیتوں کے اعتبار سے وہ ایک چلتا پھرتا کمپیوٹر تھا۔ وہ ہر جنگ سے پہلے دشمن کی فوجی طاقت، اس کی ذہنی صلاحیت، اس کی تاریخ، اس کے طریقہ واردات اور ممکنہ میدان جنگ کے جغرافیے کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا اور ان تمام اطلاعات کو اپنی فوجی حکمت عملی بنانے میں پورا پورا استعمال کرتا تھا۔ اور جہاں یہ اطلاعات میسر نہ ہوتیں وہاں اپنی سریع الحرکتی اور اپنی پوری طاقت سے دشمن پر یکایک ٹوٹ پڑنے کی حکمت عملی پر عمل کرتا۔ اسے بادشاہت یا امیری ورثہ میں نہ ملی تھی، بلکہ وہ ازبکستان کے کیش شہر کے ایک چھوٹے سے جاگیردار ترقائی کا بیٹا تھا، جو ایک راسخ العقیدہ سنی مسلمان، نماز روزہ کا سختی سے پابند اور علما کی قدر کرنے والا شخص تھا۔
تیمور کو بچپن اور لڑکپن میں ایسے بزرگان دین کی صحبت اور رہنمائی میسر آئی جو حقیقت میں عالم دین اور خدا رسیدہ تھے۔ انہوں نے تیمور کے بچپن ہی میں یہ اعلان کر دیا تھا کہ یہ بچہ فاتح ہفت اقلیم ہوگا، بلکہ ایک بزرگ نے تو تیمور کی پیدائش سے قبل ہی اس کے والد کے ایک خواب کی تعبیر کے طور پر پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہہ دی تھی کہ یہ غیر معمولی بچہ ہے اور آئندہ یہ دنیا کے بیشتر حصے کو اللہ تعالیٰ کے فضل، اپنی طاقت بازو اور غیر معمولی ذہنی صلاحیتوں سے فتح کرلے گا اور دنیا کے بیشتر حصے پر اس کا سکہ چلے گا۔ اس کا نام تیمور بمعنی آہن یا لوہا بھی اس کے محلے کی مسجد کے پیش امام نے رکھا تھا۔
تیمور نے اپنی پوری زندگی میں کسی جنگ میں شکست نہیں کھائی۔ اس نے اپنے زمانے کی دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت یعنی سلطنت عثمانیہ ترکی کے سلطان بایزید یلدرم کو کہ جس کی حکمرانی ترکی کے علاوہ یورپ کے ایک بڑے حصے پر قائم تھی، ترکی ہی میں شکست دی اور سلطان یزید یلدرم کو زندہ گرفتار کرنے کے بعد ایک فولادی پنجرے میں قید کرکے سمرقند لے آیا، اور وہ اپنی موت تک وہیں رہا۔ اس نے بحیرۂ اسود (Black Sea) کے شمال اور شمال مشرق میں بسنے والے جنگجو قبائل کو کہ اس زمانے میں جن کی یلغاروں سے نہ یورپ محفوظ تھا نہ وسطی ایشیا نہ ترکی، ان کے گھر جاکر تباہ و برباد کیا اور ان کے جوانوں اور دوشیزاؤں کو غلام بنا کر وہاں سے واپس آتے ہوئے ایک سالانہ میلے میں فروخت کردیا۔ اس پر طرہ یہ کہ اس نے یہ سب ایک سخت سرد موسم میں صرف اس لئے کیا کہ جب وہ (تیمور) ایران پر یلغار کر رہا تھا تو وہاں (قچاق) کا بادشاہ کوک تمش سمر قند پر حملے کی نیت سے اس شہر کے قریب تک آگیا تھا۔ اس یلغار میں تیمور کی پوری فوج سخت سردی میں مکمل تباہی کے قریب پہنچ گئی تھی اور تیمور نے اپنی خود نوشت سوانح عمری میں تسلیم کیا ہے کہ اس نے سرد موسم میں اس علاقے میں یلغار کرکے غلطی کی تھی اور ناتجربہ کاری کا ثبوت پیش کیا تھا۔ اس نے ہندوستان پر یلغار کی تو راستے میں ملتان کے راجہ کا مہمان رہا۔ اس سے رہبر لئے، دہلی پہنچا اور پھر اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دہلی میں وہ اور اس کے بہت سے سپاہی ہیضے کے مرض میں مبتلا ہوئے، مگر وہ بچ نکلا۔ وہیں پر ایک ہندو جوتشی جس نے اس کی موت کے سال کی پیش گوئی کی تھی، سے متاثر ہوا اور اسے قید کرکے اپنے ساتھ لے گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭