سرفروش

میں نے سردارنی اور اس کی ملازمہ جسی کو بتایا کہ بکرم سنگھ اور سورن سنگھ ظہیر کے پاس ایک محفوظ مقام پر موجود ہیں۔ میں نے دوبارہ حویلی آمد کے حوالے سے جھوٹ تراشا کہ میں موقع کا فائدہ اٹھا کر سندری کو اغوا کر کے یا فرار کراکے لے جانے کے لیے حویلی آیا تھا۔
’’پر سندری تے ہُن ایتھے نئیں اے، سردار جی اونوں کتھے ہور پُچادتا!‘‘۔ (لیکن سندری تو اب یہاں نہیں ہے، سردار جی نے اسے کہیں اور پہنچا دیا ہے)۔ پریتو نے خبر دی۔
وہ سچ بول رہی تھی یا جھوٹ، وہ وقت اس پر غور کرنے کا نہیں تھا۔ فی الوقت تو مجھے وہاں سے بچ نکلنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ لہٰذا میں نے سنجیدہ لہجے میں کہا ’’پریتو بھابھی، میں آپ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن یقین کریں ظہیر اور سندری ایک دوسرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔ آپ مخالفت کرنے کے بجائے انہیں ملوانے میں مددکریں‘‘۔
تاہم پریتو سردارنی نے میری درخواست سختی سے مسترد کر دی۔ اس پر میں نے بات اپنی مرضی کے رخ پر آگے بڑھائی ’’ٹھیک ہے، جیسے آپ کی مرضی، اگر سندری واقعی یہاں نہیں ہے تو میرا یہاں آنا بے کار گیا۔ اب بکرم سنگھ کو روک کر رکھنے کا بھی ہمیں کوئی فائدہ نہیں۔ آپ مجھے یہاں سے جانے دیں۔ میں وہاں پہنچ کرسردار جی کو بھجوا دیتا ہوں‘‘۔
’’اے نئیں ہوسکدا! پہلاں سردار ایتھے آنگے، فیر میں تینوں چھڈاں گی!‘‘۔ پریتو نے ٹھوس لہجے میں میری تجویز مسترد کر دی۔ لیکن میں اتنی آسانی سے ہار کیسے مان لیتا؟۔
’’دیکھیں، میرے پاس ظہیر سے رابطے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ اچھا ایسا کرتے ہیں، آپ مجھے اسی طرح نشانے پر رکھتے ہوئے اپنے ایک دو کارندوں کی نگرانی میں مجھے وہاں لے چلیں، جہاں اس وقت ظہیر سردار جی سمیت موجود ہے۔ حویلی کی موٹر سائیکل بھی ساتھ جائے گی۔ ہم سردار جی اور سورن کو آپ لوگوں کے حوالے کر دیں گے اور آپ کی موٹر سائیکل پر وہاں سے نکل جائیں گے‘‘۔
پریتو نے میری بات بہت توجہ سے سنی اور کچھ دیر غور کرنے کے بعد کہا ’’پر میں تیریاں گلاں تے اتبار کیویں کرسکنی آں؟ اے کوئی تہاڈی چال وی تے ہو سکدی اے؟‘‘۔ (لیکن میں تمہاری بات پر کیسے اعتبار کروں؟ یہ تمہاری کوئی چال بھی تو ہو سکتی ہے)۔
’’دیکھیں، اس وقت معاملہ برابر کا ہے۔ میں آپ کے نشانے پر ہوں تو سردار جی اور سورن ظہیر کے قبضے میں ہیں۔ آپ لوگوں کے پاس بھی بندوقیں ہیں اور ظہیر بھی مسلح ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ ویسے بھی سندری کی غیر موجودگی میں یہ سب طاقت آزمائی بے کار ہے۔ اگر آپ کو لگے کہ کہیں دھوکا ہو رہا ہے تو بے شک مجھے گولی مار دینا!‘‘۔
وہ ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئی۔ اس موقع پر جسی نے مضطرب لہجے میں کہا ’’چھیتی پھیسلا کرو سردارنی جی، ویلا ہتھوں نکلیا جاریا اے۔ میرے سورن نوں سٹ وجی ہوئی اے‘‘۔ (جلدی فیصلہ کریں سردارنی جی، وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ میرے سورن کو چوٹ لگی ہوئی ہے)۔
پریتو نے اسے ایک بار پھر ڈانٹا، لیکن وہ جلد ہی فیصلے پر پہنچ گئی ’’ٹھیک اے، تُوں موٹر سیکل تے اگے چلے گا، اسی جیپ تے ٹُراں گے۔ کوئی ہشیاری دکھان دی کوشش کیتی تے…‘‘۔
’’آپ فکر نہ کریں۔ کوئی خون خرابا نہیں ہوگا۔ وہ لوگ یہاں سے زیادہ دور نہیں ہیں۔ سردی بہت ہے، ہم جتنی جلد وہاں پہنچ جائیں، اتنا اچھا ہے۔ سردار ہرمندر کی حویلی کی گاڑی بھی وہیں موجود ہے۔ اسے آپ لوگ صبح بھجوا دینا‘‘۔
اس تمام گفتگو کے دوران مجھے یہ بھی دھڑکا لگا ہوا تھا کہ کہیں خود بکرم سنگھ نہ ٹپک پڑے اور میرے سارے کیے کرائے پر پانی پھر جائے۔ لیکن خوش قسمتی سے میرا یہ خدشہ درست ثابت نہیں ہوا۔
جسی نے وہیں چوپال کے دروازے پر کھڑے ہوکر مختلف نام لے کر لوگوں کو پکارنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد چار لوگ وہاں پہنچ چکے تھے۔ پریتو سردارنی نے مختصر الفاظ میں انہیں معاملہ سمجھایا۔ ان میں سے دو افراد اس کے حکم پر پھاٹک کے باہر کھڑی جیپ کو بے ہوش پہریدار سمیت چوپال کے پاس لے آئے۔ پہریدار کو چارپائی پر ڈالنے کے بعد ان میں سے ایک نے جیپ سے ملنے والی شاٹ گن سنبھال لی۔ دوسرا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ پریتو بھی اپنی بندوق لیے فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ موٹر سائیکل پر جیپ کے آگے چلتے ہوئے مجھے مسلسل بندوق والے ہٹے کٹے اور چاق و چوبندکارندے کے نشانے پر رہنا تھا اور مجھے حکم تھا کہ موٹر سائیکل کا فاصلہ دس پندرہ گز سے آگے نہ بڑھنے پائے۔ چاندنی مزید روشن لگ رہی تھی۔ لہٰذا وہ مطمئن تھے کہ میں اندھیرے میں ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو سکتا۔
میرے کہنے پر واپسی کے لیے وہی راستہ اختیار کیا گیا، جس سے میں یہاں پہنچا تھا۔ اب میں مطمئن تھا کہ کم ازکم راستے میں بکرم سنگھ سے مڈ بھیڑ ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔ جبکہ انہیں بھروسا تھا کہ دو بندوقیں مجھے بے چوں چرا آگے لگائے رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ انوکھا قافلہ بغیر کسی خاص واقعے کے پہلے بڑی سڑک پر اور پھر موڑ مڑکر وہاں پہنچ گیا، جہاں سے نیم پختہ سڑک بھاگو گاؤں کی طرف جا رہی تھی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment