کراچی میں جشن آزادی سیزن میں 16ارب کا بزنس متوقع

اقبال اعوان
ملک میں جاری سیاسی ہلچل کے باوجود کراچی کے شہریوں نے یوم آزادی بھرپور انداز میں منانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ پیپر مارکیٹ کے مرکزی بازار اور شہر کے مختلف علاقوں میں لگے اسٹالز پر سبز پرچموں اور جھنڈیوں کی بہار ہے۔ گلی کوچوں میں قائم دکانوں اور اسٹالوں پر خریداروں کا رش بڑھ گیا ہے۔ شہر کے تاجر رہنمائوں نے اس سال 14 اگست کے حوالے سے اشیا کی خرید و فروخت کا ہدف 16 ارب روپے رکھا ہے۔ شہر کے اہم ترین مرکز پیپر مارکیٹ کی 250 سے زائد دکانوں اور اسٹالز پر قومی پرچموں، آرائشی جھنڈیوں، بیجز، ٹی شرٹس، چوڑیوں، کلپ اور دیگر اشیا کی فروخت میں تیزی آگئی ہے۔ اس کاروبار سے ہزاروں گھرانے وابستہ ہیں۔ اس سال 80 فیصد سامان چین سے درآمد کیا گیا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال کی نسبت اس بار یہ اشیا 25 فیصد مہنگی ہیں، تاہم شہری بھرپور خریداری کر رہے ہیں۔
شہرِ کراچی میں جشن آزادی کے حوالے سے سجاوٹ کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ ممکنہ بارش کے باعث کاغذ کی جھنڈیاں نہیں لگائی جارہیں، تاہم پرچم اور رنگین لائٹیں لگانے کا کام شروع ہو چکا ہے۔ کراچی میں 5 سال قبل تک 14 اگست کی مناسبت سے سجاوٹی اشیا مثلاً جھنڈے، جھنڈیاں اور دیگر آرائشی سامان کراچی کے علاوہ پنجاب اور اندرون سندھ میں تیار ہوتا تھا۔ بعد ازاں یہ اشیا چائنا سے منگوائی جانے لگیں۔ ان میں رنگ برنگی لائٹیں اور خوب صورت بیجز بھی شامل تھے، جو زیادہ پسند کئے گئے اور ہر سال نت نئی اقسام کی اشیا چائنا سے امپورٹ کی جانے لگیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ 80 فیصد اشیا چائنا سے آرہی ہیں، جن میں قومی پرچم، جھنڈیاں، بگل، باجے، غبارے، کنگن، کیپ، چوڑیاں، ماسک، ٹی شرٹس، ربن، چھتری، درجنوں اقسام کے خوب صورت بیجز اور دیگر سجاوٹی اشیا کے علاوہ خوب صورت رنگ برنگی لائٹوں کی جھالریں، اسپاٹ لائٹ اور بانی پاکستان کی تصاویر بنانے والی مختلف اقسام کی لائٹس شامل ہیں۔ جبکہ 20 فیصد سامان لوکل تیار ہو رہا ہے۔ کراچی میں کاغذ کی جھنڈیاں، گارمنٹس، قومی پرچم اور حیدرآباد سے چوڑیاں بن کر آتی ہیں۔ پنجاب سے بیجز آتے ہیں، لیکن شہری لوکل اشیا سے زیادہ چائنا کی اشیا کو ترجیح دیتے ہیں۔
’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے خصوصی سروے کے مطابق پیپر مارکیٹ میں 150 دکانوں اور 100 سے زائد اسٹالوں پر یوم آزادی کے حوالے سے قومی پرچم، کاغذی جھنڈیاں، بیجز، اسٹیکر، کیپ، ٹی شرٹس اور دیگر سامان کی فروخت میں تیزی آچکی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل الیکشن سیزن تھا اور اب 14 اگست کے چند روز بعد بقرعید ہے۔ تینوں ایونٹ ساتھ ہونے کے باوجود شہری یوم آزادی جوش و خروش کے ساتھ منانے کی تیاری شروع کر چکے ہیں۔ کراچی بھر میں ہزاروں اسٹالز لگ رہے ہیں۔ تاجروں نے بتایا کہ جشن آزادی کے موقع پر سجاوٹی سامان کی خریدوفروخت سے ہزاروں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے۔ دوسری جانب جہاں شہری تیاریوں میں لگے ہیں، وہیں الیکشن کے بعد مختلف سیاسی پارٹیاں بھی قومی دن منانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔ نجی رہائشی اور کمرشل عمارتوں پر لائٹوں سے قومی پرچم بنائے جا رہے ہیں۔ گاڑیوں کو سجایا جارہا ہے۔ بچوں نے بھی کپڑے، جھنڈے، بیجز اور ٹوپیاں خرید کر جشن آزادی منانے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ جبکہ بعض کچی آبادیوں کے غریب بچے اب بھی کاغذ کی جھنڈیاں خرید کر جھالریں بناتے ہیں۔ تاہم وہ ابھی اس لیے لگا نہیں رہے کہ بادل چھائے ہوئے ہیں اور بارش کی صورت میں جھنڈیاں خراب ہو جائیں گی۔ البتہ کپڑے کے جھنڈے لگانے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔
پیپر مارکیٹ ایسوی ایشن کے عہدیدار محمد عمران کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’’چائنا نے 14 اگست کے حوالے سے سجاوٹی اشیا کی تعداد بڑھا دی ہے۔ ہر سال پچاس سے ساٹھ اقسام کی نئی اشیا مارکیٹ میں آتی ہیں۔ اس مرتبہ 80 فیصد اشیا چائنا سے آرہی ہیں۔ لگتا ہے چائنا آئندہ دو تین سال میں مکمل طور پر اس سیزن کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ جبکہ ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے چائنا سے اشیا کی درآمد پر اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ اسی لئے اس بار گزشتہ سال کی نسبت یہ اشیا بیس فیصد تک فیصد مہنگی ہیں۔ یہ ہول سیل ریٹ ہیں، جبکہ اسٹالز اور ٹھیلوں پر اشیا 40 فیصد تک مہنگی ہوں گی‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ ’’گزشتہ سال کراچی کے تاجروں نے جشن آزادی سیزن میں 15 ارب روپے کا ہدف رکھا اور لگ بھگ 11 سے بارہ ارب روپے کا کاروبار ہوا۔ اس بار 16 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے کہ اتنا بزنس متوقع ہے‘‘۔ دکاندار محمد رئیس کا کہنا تھا کہ ’’دو چار روز بعد شہر بھر میں اسٹالز نظر آئیں گے۔ اس بار قومی پرچم کی مناسبت سے چائنا کے ہرے اور سفید غبارے مارکیٹ میں متعارف کرائے گئے ہیں‘‘۔ دکاندار افتخار نے کہا کہ ’’عوام میں قومی دنوں کو بھرپور منانے کا رجحان بڑھا ہے۔ امیر و غریب سب سجاوٹی اشیا اور جھنڈے خریدنے آرہے ہیں۔ یوم آزادی کے حوالے سے اشیا کی تیاری کا کام جون میں شروع کر دیا جاتا ہے۔ کارخانوں میں کاغذ کی جھنڈیاں، سبز ہلالی پرچم اور دیگر سامان تیار کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد میں ہرے اور سفید رنگ کی کانچ کی چوڑیاں اور کراچی میں پلاسٹک کی چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں‘‘۔ دکاندار زاہد کا کہنا تھا کہ ’’بہت سارے آئٹم اورنگی ٹائون، لیاقت آباد، کورنگی اور دیگر آبادیوں میں گھروں پر تیار کئے جاتے ہیں۔ اس طرح ہزارورں افراد کا روزگار لگ جاتا ہے‘‘۔ دکاندار جاوید کے بقول ’’چائنا کی اشیا دیدہ زیب ہیں اور قیمتیں بھی مناسب ہیں۔ تاہم چین سے زیادہ سامان منگوانے کی صورت میں مقامی صنعت کو نقصان ہوگا اور ہزاروں لوگوں کا روزگار متاثر ہو گا‘‘۔ دکاندار مہربان کا کہنا تھا کہ ’’پیپر مارکیٹ سے کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر شہروں کے علاوہ حیدرآباد اور اندرون سندھ کے کئی شہروں میں یہ اشیا لے جائی جاتی ہیں‘‘۔ جشن آزادی کی اشیا کا اسٹال لگانے والی ہندو خواتین ساوتری اور پدمنی کا کہنا تھا کہ وہ حیدرآباد کی بنی کانچ کی چوڑیاں اور کراچی میں بنی پلاسٹک کی چوڑیاں فروخت کرتی ہیں۔ روزانہ 3 سے چار سو روپے مل جاتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment