شیخ رشید نے عمران سے کسی عہدے کی ڈیمانڈ نہیں کی

مرزا عبدالقدوس
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے ممکنہ وزیر اعظم عمران خان سے کسی عہدے کی ڈیمانڈ نہیں کی۔ ان کا موقف ہے کہ وزارت کی صورت میں جو بھی ذمہ داری دی گئی وہ اسے چیلنج سمجھ کر قبول کریں گے۔ شیخ رشید کے مطابق ان کا مشن لٹیروں کو جیل بھجوانا اور عمران کو وزیر اعظم بنانا تھا، جس میں انہیں کامیابی نصب ہوئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اپوزیشن اتحاد چند روز میں ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔
شیخ رشید احمد گھٹنے پر چوٹ لگنے کے بعد الیکشن کے فوراً بعد کچھ دنوں کیلئے منظر سے غائب ہو گئے تھے، لیکن اب پچھلے تین چار دنوں سے ایک بار پھر متحرک ہوگئے ہیں۔ عمران خان سے یہ یقین دہانی حاصل کرنے کے بعد این اے 60 راولپنڈی کے ضمنی الیکشن میں ان کے بھتیجے شیخ راشد شفیق پی ٹی آئی کے امیدوار ہوں گے، وہ کافی مطمئن ہیں۔ واضح رہے کہ قومی اسمبلی کی نشست پر حنیف عباسی کی نا اہلی کے بعد الیکشن ملتوی کر دیا گیا تھا۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ کے قریبی ذرائع کے مطابق شیخ رشید خود عمران خان سے وفاقی کابینہ میں اپنے لئے کسی وزارت کی ڈیمانڈ نہیں کریں گے۔ بلکہ عمران خان جو وزارت دیں گے وہ انہیں قبول ہوگی۔ صدر عوامی مسلم لیگ کا موقف ہے کہ وہ اتنے بھولے اور بے وقوف نہیں کہ ساری دنیا اور میڈیا کے سامنے عمران خان سے کسی وزارت کا مطالبہ کریں۔ ان ذرائع کے مطابق شیخ رشید احمد کو بھروسہ ہے کہ ان کی وزارت کا فیصلہ کرنے سے پہلے عمران خان ان سے مشاورت کریں گے اور ان کی رائے کو نظر انداز بھی نہیں کریں گے۔ ان ذرائع کے بقول الیکشن کے بعد شیخ رشید کی عمران خان سے باقاعدہ ملاقات نہیں ہوئی اور نہ انہوں نے اس کی کوشش کی، لیکن باہمی رابطے کے ذریعے انہوں نے شیخ راشد شفیق کیلئے ٹکٹ حاصل کر لیا ہے، جو پی ٹی آئی کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیں گے۔جبکہ شیخ رشید احمد کا کہنا ہے کہ انہوں نے وزارت داخلہ کی ڈیمانڈ نہیں کی، بلکہ کسی بھی عہدے کی ڈیمانڈ نہیں کی۔ لیکن اگر یہ قومی ذمہ داری انہیں مل گئی تو قومی دولت لوٹنے والے چوروں، لٹیروں اور ڈاکوؤں کو وہ جیل میں ڈال دیں گے اور ان سے لوٹی ہوئی قومی دولت واپس لینے کیلئے تمام قانونی وسائل کو بروئے کار لائیں گے۔ ان کے مطابق اس صورت میں شہباز شریف، خاقان عباسی اور خواجہ آصف بھی نواز شریف کے ساتھ جیل میں ہوں گے۔
’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ ’’میرا گزشتہ کئی برسوں سے مشن چوروں لٹیروں کو جیل بھجوانا اور عمران خان کو وزیراعظم بنانا تھا، جس میں اللہ کے کرم سے میں کامیاب ہوا ہوں۔ میں وزیر اطلاعات سے لے کر سیاحت، ثقافت اور ریلوے سمیت سات آٹھ وزارتوں کا وزیر رہا ہوں۔ وزارت میرے لئے اہم نہیں ہے۔ عمران خان نے جو وزارت دی قومی خدمت اور چیلنج سمجھ کر قبول کروں گا۔ لیکن وزارت کوئی بھی ہو اپنے مشن کو نہیں بھولوں گا‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’عمران خان نے الیکشن نتائج کے بعد اب تک اچھی حکمت عملی اپنائی ہے۔ میں ان کا اتحادی ہوں، ان کی پارٹی کا حصہ نہیں کہ مشورہ دوں کہ پی پی سے بات کریں یا فلاں سے کریں۔ مجھ سے مشورہ مانگیں گے تو دوں گا یا جب سمجھوں گا کہ وہ مشکل میں ہیں تب آگے بڑھوں گا۔ اس وقت صورت حال کنٹرول میں ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب میں ہمارے اتحاد کو اکثریت مل رہی ہے، لیکن یہ بات ٹھیک ہے کہ بلاول زرداری سے میرا سیاسی تعلق ہے اور میں ان سے کسی بھی وقت رابطہ کر سکتا ہوں‘‘۔ انہوں نے چوہدری نثار علی خان کے بارے میں بات کرنے سے معذرت کی اور کہا کہ فی الحال اس بارے میں کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ شیخ رشید احمد نے کہا کہ وفاقی کابینہ اور دونوں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کیلئے جو نام فائنل ہو چکے ہیں یا ہو رہے ہیں مجھے کافی باتوں کا علم ہے، لیکن میرے پاس وہ امانت ہے ان کا باقاعدہ اعلان پی ٹی آئی کرے گی۔
اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ رشید احمد نے کہا کہ عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے اندر فارورڈ بلاک بنے گا۔ نواز شریف کا یہ خیال تھا کہ ان کے جیل جانے کی صورت میں ن لیگ کو ہمدردی کی بنیاد پر کثیر تعداد میں ووٹ ملیں گے اور وہ اکثریت حاصل کرکے حکومت بنالے گی۔ لیکن یہ سب خام خیالی ثابت ہوا اور ن لیگ بری طرح پٹ گئی۔ شیخ رشید احمد کے بقول ’’اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد چند دن میں ٹائیں ٹائیں فش ہوجائے گا۔ جن سیاست دانوں کی سیاسی دکانیں بند ہو رہی ہیں وہ عمران خان سے خوف زدہ ہیں۔ جبکہ میں صدق دل سے سمجھتا ہوں کہ عمران خان اس ملک کی تقدیر بدلنے کا خواہش مند ہے اور اس کی جدو جہد عوام کے مفاد اور ملک کی ترقی کیلئے ہے‘‘۔ شیخ رشید احمد کے مطابق اب ان کی سیاست عمران خان کے ساتھ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کا کوئی مستقبل نہیں، جبکہ بلاول زرداری نے اگر محنت کی اور آصف زرداری کی چھتری سے نکلنے میں وہ کامیاب ہوگئے تو پیپلز پارٹی میں ایک بار پھر جان پڑ سکتی ہے اور وہ اپنے ماضی کے کردار کی طرح قومی سیاست میں آئندہ بھی اہم کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتی ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment