امام اصمعیؒ کہتے ہیں:
’’ایک مرتبہ حارث بن مسکینؒ خلیفہ مامون رشید کے دربار میں حاضر ہوئے۔ خلیفہ نے ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیا، جس پر انہوں نے کہا:
نرمی خدا کی وہ رحمت ہے، جس سے قلوب کو فتح کیا جا سکتا ہے۔ باری تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:
ترجمہ: ’’ان واقعات کے بعد خدا تعالیٰ کی رحمت ہی تھی، جس کی بنا پر اے پیغمبر! تم نے ان لوگوں سے نرمی کا برتاؤ کیا، اگر تم سخت مزاج اور سخت دل والے ہوتے تو یہ تمہارے آس پاس سے ہٹ کر تتر بتر ہو جاتے۔‘‘ (سورۃ آل عمرآن: 109)
’’میں وہی جواب دوں گا جو آپ کے والد خلیفہ ہارون رشید کو امام مالک بن انسؒ نے دیا تھا۔‘‘
پھر انہوں نے امام مالکؒ کا قول ذکر کیا، جو خلیفہ کو پسند نہیں آیا۔
مامون رشید نے کہا: ’’تو بھی اور مالک دونوں ہی بدبخت!‘‘
حارث بن مسکینؒ نے کہا: ’’سننے والا ان دونوں سے زیادہ بدبخت!‘‘ یہ جواب سنتے ہی خلیفہ کا چہرہ بگڑ گیا۔
حارث نے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر وہاں سے اٹھ کر چلنے میں عافیت جانی، چنانچہ وہ وہاں سے چل پڑے۔ ابھی وہ اپنے گھر پہنچے بھی نہیں تھے کہ خلیفہ کا قاصد ان کے پاس پہنچا اور دربار میں دوبارہ پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ قاصد کے اڑے چہرے کو دیکھ کر ان کا دل بھی اڑنے لگا اور انہیں یقین ہوگیا کہ اب کی بار یہ پیشی ان کے حق میں نہیں ہوگی، اس لیے وہ کفن والا لباس پہن کر حاضر خدمت ہوئے۔
کسی شخص کو کسی شخص یا گروہ سے نقصان کا اندیشہ ہو تواس دعا کو پڑھنے سے حق تعالیٰ پڑھنے والے کو اپنی حفاظت میں لے لیتے ہیں:
ترجمہ: ’’خدایا! ہم تجھے ان کے مقابلے میں (اپنے لیے) ڈھال بناتے ہیں اور ان کی برائیوں سے تیری پناہ لیتے ہیں۔‘‘
(سنن ابی داؤد، الصلاۃ، ما یقول الرجل اذا خاف قوماً، الرقم: 1037)
خلیفہ نے انہیں اپنے قریب بلایا اور ان کی طرف متوجہ ہو کر کہا: ’’حق تعالیٰ نے جب آپ سے بہتر انسان کو مجھ سے بھی زیادہ برے انسان کے پاس بھیجا تو انہیں حکم دیا تھا کہ نرمی سے بات کرنا! چنانچہ حضرت موسیٰؑ کو جب فرعون کے پاس دعوت دین کے سلسلے میں بھیجا گیا تو حق تعالیٰ نے ان سے فرمایا تھا:
ترجمہ: ’’جاکر دونوں اس سے نرمی سے بات کرنا، شاید وہ نصیحت قبول کرے، یا (خدا سے) ڈر جائے۔‘‘ (سورئہ طٰہٰ)
حارث نے کہا: ’’امیر المومنین! میں اپنے جرم کا اعتراف، آپ سے معذرت اور حق تعالیٰ سے گناہوں کی معافی چاہتا ہوں۔‘‘ خلیفہ نے کہا: ’’خدا تعالیٰ آپ سے درگزر فرمائے! آپ پر کوئی ملامت نہیں ہے اور آپ مکمل آزاد ہیں۔‘‘
(الفرج بعد الشدۃ و الضیقۃ، لابن جوزی)
٭٭٭٭٭