حضرت حذیفہ کی جاسوسی کا واقعہ

حضرت حذیفہ بن یمانؓ سے ایک شخص نے جو کوفے کے رہنے والے تھے، کہا کہ حضرت! آپ بڑے خوش نصیب ہیں کہ آپ نے رسول اقدسؐ کو دیکھا اور آپؐ کی مجلس میں بیٹھے، بتائیے تو آپ کیا کرتے تھے؟
حضرت حذیفہؓ نے فرمایا: بخدا! ہم جان نثاریاں کرتے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ سنئے چچا اگر ہم حضور اقدسؐ کے زمانے کو پاتے تو بخدا آپ کے قدم بھی زمین پر نہ رکھنے دیتے، اپنی گردنوں پر اٹھا کر لے جاتے۔
آپؓ نے فرمایا بھتیجے لو ایک واقعہ سنو! جنگ خندق کے موقع پر رسول اقدسؐ بڑی دیر تک نماز پڑھتے رہے، فارغ ہو کر دریافت فرمایا کہ کوئی ہے، جو جا کر لشکر کفار کی خبر لائے؟ نبی اکرمؐ اس سے شرط کرتے ہیں کہ وہ جنت میں داخل ہو گا۔
مگر کوئی کھڑا نہ ہوا، کیونکہ خوف کی، بھوک کی اور سردی کی انتہا تھی، پھر آپؐ دیر تک نماز پڑھتے رہے، پھر فرمایا: ہے کوئی ہے جو جا کر یہ خبر لا دے کہ مخالفین نے کیا کیا؟ رسول خداؐ اسے مطمئن کرتے ہیں کہ وہ ضرور واپس آئے گا اور میری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے جنت میں میرے رفیق کرے۔
اب بھی کوئی کھڑا نہ ہوا اور کھڑا ہوتا کیسے؟ بھوک کے مارے پیٹ کمر سے لگ رہا تھا۔ سردی کے مارے دانت بج رہے تھے، خوف کے مارے پتے پانی ہو رہے تھے۔ بالآخر میرا نام لے کر رسول اکرمؐ نے آواز دی۔ اب تو کھڑے ہوئے بغیر چارہ نہ تھا۔ فرمانے لگے: حذیفہ تم جائو اور دیکھو کہ وہ (دشمن) اس وقت کیا کر رہے ہیں، جب تک میرے پاس واپس نہ پہنچ جائے، کوئی نیا کام نہ کرنا۔
میں نے بہت خوب کہہ کر اپنی راہ لی اور جرأت کر کے مشرکوں میں گھس گیا، وہاں جا کر عجیب حال دیکھا کہ دکھائی نہ دینے والے خدائی لشکر اپنا کام پھرتی سے کر رہے ہیں، چولہوں پر سے دیگیں ہوا نے الٹ دی ہیں، خیموں کی چوبیں اکھڑ گئی ہیں، آگ جلا نہیں سکتے، کوئی چیز اپنے ٹھکانے نہیں رہی، اسی وقت ابو سفیان کھڑا ہوا باآواز بلند منادی کی کہ اے قریشیو! اپنے اپنے ساتھی سے ہوشیار ہو جائو، اپنے ساتھی کو دیکھ لو، ایسا نہ ہو کہ کوئی غیر یہاں موجود ہو؟
میں نے یہ سنتے ہی اپنے پاس جو ایک قریشی جوان تھا، اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس سے پوچھا تو کون ہے؟ اس نے کہا میں فلاں بن فلاں ہوں، میں نے کہا اب ہوشیار رہنا، پھر ابو سفیان نے کہا: قریشیو! خدا گواہ ہے، ہم اس وقت کسی ٹھہرنے کی جگہ پر نہیں ہیں، ہمارے مویشی ہمارے اونٹ ہلاک ہو رہے ہیں، بنو قریظہ نے ہم سے وعدہ خلافی کی، اس نے ہمیں بڑی تکلیف پہنچائی، پھر اس ہوا نے ہمیں پریشان کرر کھا ہے، ہم پکا کر کھا نہیں سکتے، آگ تک جلا نہیں سکتے، خیمے ڈیرے ٹھہر نہیں سکتے، میں تو تنگ آ گیا ہوں اور میں نے تو ارادہ کر لیا ہے کہ واپس ہو جائوں، پس میں تم سب کو حکم دیتا ہوں کہ واپس چلو۔
اتنا کہتے ہی وہ اپنے اونٹ پر جو زانو بندھا ہوا بیٹھا تھا، چڑھ گیا اور اسے مارا، وہ تین پائوں سے ہی کھڑا ہو گیا، پھر اس کا پائوں کھولا، اس وقت ایسا اچھا موقع تھا کہ اگر میں چاہتا تو ایک تیر میں ہی ابوسفیان کا کام تمام کر دیتا، لیکن رسول اقدسؐ نے مجھ سے فرما دیا تھا کہ کوئی نیا کام نہ کرنا، اس لئے میں نے اپنے دل کو روک لیا، اب میں واپس لوٹا اور اپنے لشکر میں آ گیا، جب میں پہنچا ہوں تو میں نے دیکھا کہ رسول اکرمؐ ایک چادر کو لپیٹے ہوئے جو آپؐ کی کسی زوجہ محترمہ کی تھی، نماز میں مشغول ہیں۔ آپؐ نے مجھے دیکھ کر اپنے دونوں پیروں کے درمیان بٹھا لیا اور چادر مجھے بھی اڑھا دی، پھر رکوع و سجدہ کیا اور میں وہیں وہی چادر اوڑھے بیٹھا رہا، جب آپؐ فارغ ہوئے تو میں نے سارا واقعہ بیان کیا، قریشیوں کے واپس لوٹ جانے کی خبر جب قبیلہ غطفان کو پہنچی تو انہوں نے بھی سامان باندھا اور واپس لوٹ گئے اور روایت میں ہے حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں جب میں چلا تو باوجود کڑاکے کی سخت سردی کے قسم خدا کی مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ گویا میں کسی گرم حمام میں ہوں، اس میں یہ بھی ہے کہ جب میں لشکر کفار میں پہنچا ہوں، اس وقت ابوسفیان آگ سلگائے ہوئے تاپ رہا تھا، میں نے اسے دیکھ کر پہچان کر اپنا کمان چڑھا لیا اور چاہتا ہی تھا کہ تیر چلا دوں اور وہ بالکل زد میں تھا، ناممکن تھا کہ میرا نشانہ خالی جائے، لیکن مجھے رسول اکرمؐ کا یہ فرمان یاد آ گیا کہ کوئی ایسی حرکت نہ کرنا کہ وہ چوکنے ہو کر بھڑک جائیں، تو میں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا، جب میں واپس آیا تو اس وقت بھی مجھے کوئی سردی محسوس نہ ہوئی، بلکہ یہ معلوم ہو رہا تھا کہ گویا میں حمام میں چل رہا ہوں، وہاں جب حضورؐ کے پاس پہنچ گیا بڑے زور کی سردی لگنے لگی اور میں کپکپانے لگا تو حضورؐ نے اپنی چادر مجھ کو اوڑھا دی، میں جو اوڑھ کر لیٹا تو مجھے نیند آ گئی اور صبح تک پڑا سوتا رہا، صبح خود رسول اکرمؐ نے مجھے یہ کہہ کر جگایا: اے سونے والے بیدار ہو جا۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جب اس تابعی نے کہا کہ کاش کہ ہم رسول اکرمؐ کو دیکھتے اور آپؐ کے زمانے کو پاتے تو حذیفہؓ نے کہا کاش کہ تم جیسا ایمان ہمیں نصیب ہوتا کہ باوجود نہ دیکھنے کے پورا اور پختہ عقیدہ رکھتے ہو، برادر زادے جو تمنا تم کرتے ہو یہ تمنا ہی ہے، نہ جانے تم ہوتے تو کیا کرتے۔ ہم پر تو ایسے کٹھن وقت آئے ہیں۔ (سبق آموز واقعات)

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment