گلگت بلتستان میں امن کے لئے کراچی سے افسران طلب

عمران خان
گلگت بلتستان میں قیام امن کیلئے کراچی سے سیکورٹی ادارے کے افسران کو طلب کرلیا گیا ہے۔ آئی جی گلگت بلتستان ثنا اللہ کی کال پر سی ٹی ڈی کی ٹیم جلد گلگت روانہ ہوگی۔ ادھر گلگت بلتستان کے علاقے دیامر میں اسکولوں پر حملوں کے بعد سکیورٹی فورسز نے 22 مطلوب ترین دہشت گردوں کی تلاش تیز کردی ہے، جن میں سے 10کا تعلق دیامر اور اطراف کے علاقوں سے ہے۔ انہی میں شامل دہشت گردوں نے 2011 میں بالکل اسی انداز میں 2 اسکولوں اور عسکری تنصیبات کو دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ مذکورہ 22 دہشت گردوں کو کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ کے علاوہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی ایف آئی اے کے کائونٹر ٹیررازم ونگ (سی ٹی ڈبلیو) کی انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ہے اور ان کی زندہ یا مردہ گرفتاری پر 5لاکھ روپے فی کس انعام مقرر ہے۔ سی ٹی ڈی گلگت بلتستان (جی بی) کے ذرائع کے بقول پاکستان کیلئے اہم ترین یہ علاقہ اس وقت ملک دشمن عناصر کے نشانے پر ہے۔ ایسی رپورٹس موصول ہورہی ہیں کہ بیرونی قوتوں کی ہدایات پر تخریب کار ایک بار پھر اس علاقے میں بدامنی بپا کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ مستقبل میں سی پیک کے علاوہ کئی دیگر اہم منصوبوں میں گلگت بلتستان کا اہم کردار ہے اور ملک کے پانی کے ذخائر کے حوالے سے بھی اس علاقے پر ملکی انحصار میں مستقبل میں مزید اضافہ ہوگا۔
ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے مختلف علا قوں میں دہشت گردوں کی جانب سے اب تک 14 اسکولوں کو نقصان پہنچایا جا چکا ہے، جن میں سے 13 اسکولوں کو دوروز قبل نشانہ بنایا گیا تھا۔ جبکہ ایک اسکول کو جمعہ اور ہفتہ کی شب نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ (سی ٹی ڈبلیو) سندھ میں کئی برس گزارنے کے بعد آئی جی گلگت بلتستان کا چارج سمبھالنے والے ثنا اللہ عباسی نے گلگت بلتستان میں دہشت گردی کے خاتمے کیلئے تجربہ کار پولیس افسران پر مشتمل خصوصی ٹیم بنانے کا فیصلہ کیا ہے، انہوں نے کالعدم تنظیموں اور دہشت گردوں سے متعلق تربیت دینے کیلئے کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ سندھ کے افسران سے معاونت طلب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے جلد ہی ایک ٹیم گلگت بلتستان جائے گی۔
ذرائع کے مطابق گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے جن 22 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تلاش ہے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے ہے۔ یہ دہشت گرد ماضی میں مولوی فضل اللہ گروپ کے ساتھ کارروائیاں کرتے رہے۔ ان میں محمد ریاض عرف کوتوالی، حیدر جان عرف جانو، شاہد علی، اصغر خان، یوسف، مولوی ندیم عرف قاری ندیم، فرمان اللہ، محکوم اللہ، اقبال پٹھان، طارق، نقیب احمد، بشیر احمد، خان ولی، جوندار، راجی محمد، قاندیرو، فرش ولی اور افضل عرف چھوٹا قاری شامل ہیں۔ جبکہ دیگر کالعدم تنظیموں سے شیر عباس، سید یاسر عباس اور سید اظہار حسین شامل ہیں۔ ملزمان میں شامل محکوم اللہ کے حوالے سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاس رپورٹ موجود ہے کہ اس نے اپنے دیگر ساتھیوں عبدالحمید، عبدالمالک اور خلیل الرحمن کے ساتھ مل کر 2011ء میں 15جنوری کو رات کے وقت فیڈرل گورنمنٹ ہائی اسکول چلاس، فیڈرل گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول شاہین کوٹ چلاس اور پبلک ہائی اسکول چلاس میں دھماکہ خیز بارودی مواد نصب کیا تھا، جس سے ان اسکولو ں کو شدید نقصان پہنچا تھا۔
گلگت سے موصولہ معلومات کے مطابق سیکورٹی فورسز کی جانب سے دیامر سمیت مختلف علاقوں میں جمعہ اور ہفتہ کی شب شروع کیا گیا آپریشن مسلسل جاری ہے اور اب تک 43 مشتبہ افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کیلئے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا، چونکہ یہ علاقے جرگہ سسٹم کے تحت چلائے جاتے ہیں اس لئے سکیورٹی فورسز اور علاقے کے جرگہ کے عمائدین کے درمیان مسلسل معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے اور جرگہ عمائدین کی جانب سے دہشت گردی کے اس واقعہ پر سیکورٹی فورسز کو بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ ذرائع کے بقول جرگہ کے عمائدین کی جانب سے سکیورٹی فورسز حکام سے اپیل کی گئی ہے کہ آپریشن میں معززین پر براہ راست ہاتھ نہ ڈالا جائے اور اگر ان میں سے کسی کی گرفتاری ضروری بھی ہو تو جرگہ عمائدین کو پہلے اعتماد میں لیا جائے۔ ذرائع کے بقول اب تک حراست لئے گئے افراد میں سے 15 افراد کے کوائف ایک فہرست کی صورت میں جرگہ عمائدین کے حوالے کئے گئے ہیں ۔
کائونٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ جی بی ذرائع کے مطابق اس وقت گلگت بلتستان کے اضلاع دیامر، چلاس، اوستور سمیت تمام دیگر علاقوں میں سیکورٹی انتہائی الرٹ کردی گئی ہے۔ خصوصی طور پر تعلیمی اداروں اور سرکاری عمارتوں کی سکیورٹی سخت کردی گئی ہے جہاں سکیورٹی کے تین حصار قائم کئے گئے ہیں۔
ذرائع کے بقول چلاس اور دیامرکے اطراف دو روز قبل رات گئے دہشت گردوں نے بیک وقت کی جانے والی کارروائیاں منصوبہ بندی سے کی تھیں، جس کیلئے دہشت گردوں نے ایک ہی کمانڈ پر مختلف ٹولیوں کے صورت میں علاقوں کے اندر پھیل کر دو نئی عمارتیں اور تکیہ کے گرلز پرائمری سکولوں کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کیا، جبکہ دیامر کے نواحی علاقہ داریل میں آرمی پبلک سکول، تانگیر، ہوڈر، کھنبری، جگلوٹ، گلی بالا، گلی پائین سمیت متعدد جگہوں پر13 سکولوں میں آتش گیر مادہ سے آگ لگائی گئی جس سے عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا۔ اسکولوں کو جلائے جانے کے واقعات کے بعد پولیس نے علاقہ کے داخلی اور خارجی راستوں پر ناکہ بندی کر کے سرچ آپریشن شروع کر دیا۔ مقامی ذرائع کے بقول ان تمام 14 اسکولوں میں شامل 10 اسکول کچے بنے ہوئے تھے اور یہ آگ سے تباہ ہوئے۔ جبکہ آرمی پبلک اسکول سمیت چار اسکول سیمنٹ اور آر سی سی کے پکے بنے ہوئے تھے، جنہیں نقصان پہنچانے کے لئے دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا۔
پولیس ذرائع کے بقول تعلیمی اداروں کو نشانہ بنانے کی ذمہ داری تاحال کسی نے قبول نہیں کی۔ واقعہ کے بعد آئی جی گلگت بلتستان ثناء اللہ عباسی، فورسزکمانڈر میجر جنرل ثاقب محمود، کمشنر دیامر نے حملے کا شکار ہونے والے اسکولوں کا دورہ کیا۔ اس موقع پر آئی جی گلگت بلتستان ثنا اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی کی کارروائی ہے اور انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
مقامی افراد کے مطابق ان علاقوں میں ملک دشمن عناصر کی سرگرمیوں پر کنٹرول کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز نے ماضی میں بھی کئی آپریشنز کئے، کیونکہ 2003ء کے بعد سے لے کر اب تک ان علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی پھیلانے کیلئے اسکولوں اور سرکاری وعسکری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے علاوہ فرقہ وارانہ فسادات برپا کرنے کیلئے کئی سازشیں کی جاتی رہیں۔ تاہم مولوی فضل اللہ کے گروپ کے خلاف آپریشن کے بعد کافی عرصے تک یہاں امن قائم رہا۔ یہ علاقے ایک بار پھر ملک دشمن قوتوں کے نشانے پر آنے لگے ہیں، جس کی سب سے بڑی وجہ اس علاقے کی پاکستان کیلئے بڑھتی ہوئی اہمیت ہے ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment