کراچی میں ٹارگٹڈ آپریشن چلتا رہے گا

امت رپورٹ
تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان ہونے والا معاہدہ کراچی آپریشن پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا۔ واضح رہے کہ مرکز میں سپورٹ کرنے کے بدلے ایم کیو ایم پاکستان نے تحریک انصاف سے جو تحریری معاہدہ کیا ہے۔ اس کی تیسری شق میں کہا گیا ہے کہ کراچی آپریشن پر نظر ثانی کر کے اسے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائے گی اور تمام پارٹیوں کو یکساں مواقع فراہم کئے جانے چاہیں۔
اعلیٰ سیکورٹی حلقوں سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکورٹی معاملات کے کچھ پیرا میٹرز ہیں اور ایک لائن ڈرا کی گئی ہے۔ اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنا ریاستی پالیسی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی بھی حکومت آجائے، ملک بھر میں دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں اور سلیپر سیلوں کے خاتمے کے لئے آپریشن ردالفساد جاری رہے گا۔ یہی معاملہ کراچی میں دہشت گردوں کے خلاف جاری ٹارگٹڈ آپریشن کا ہے۔ سیکورٹی اداروں نے سخت محنت کے بعد ملک کے معاشی حب میں امن بحال کیا ہے اور اب اسے مستحکم کرنے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشن جاری ہے۔ سی پیک کے تناظر میں یہ اولین ضرورت ہے لہٰذا ریاستی پالیسی ہے کہ کراچی میں قائم امن کو کسی سیاسی مصلحت کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا، جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔ ذرائع کے مطابق کراچی میں اگرچہ بڑی حد تک امن قائم ہو چکا ہے لیکن اسے مستقل امن میں تبدیل کرنے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشن کی ضرورت ابھی باقی ہے کیونکہ بالخصوص ایم کیو ایم لندن کے تمام سلیپر سیلوں کا خاتمہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ جبکہ صوبائی مشینری کے عدم تعاون اور غفلت کے باعث سینکڑوں دہشت گردوں کی قسمت کا فیصلہ بھی تاحال نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے بقول یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے دوران قومی سلامتی اداروں نے دہشت گردی کے خطرات سے متعلق جو الرٹ جاری کئے ان میں ایک دو تھریٹ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے بھی تھیں۔ اگر کسی منطقی انجام تک پہنچائے بغیر کراچی آپریشن اس اہم ترین مرحلے میں رول بیک کر دیا جاتا ہے تو ایم کیو ایم لندن جیسی ریاست مخالف تنظیموں اور متعدد کالعدم تنظیموں کو دوبارہ منظم اور متحرک ہونے کا موقع مل سکتا ہے۔ لہٰذا کراچی آپریشن بند کرنے کا آپشن تو دور کی بات ہے اس پر سوچا بھی نہیں جا رہا۔ ذرائع کے بقول پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کراچی آپریشن کی شق شامل کرنے سے پہلے قومی اداروں سے کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی۔ اگر مشاورت کی بھی گئی تو ایم کیو ایم کی خواہش کے برخلاف نتیجہ نکلے گا۔ ذرائع کے مطابق سندھ میں پی ٹی آئی کی مضبوط اپوزیشن آئی ہی اس لئے ہے کہ وہ کراچی میں امن و امان سے متعلق صوبائی حکومت کے اقدامات پر چیک رکھ سکے۔ قبل ازیں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پر کسی قسم کا چیک نہیں تھا۔ اور ایم کیو ایم کی شکل میں جو بھاری بھر کم اپوزیشن تھی۔ اس کے اپنے عسکری ونگز کے خلاف آپریشن ہو رہا تھا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی آپریشن کم از کم ایک برس تک مزید چلتا رہے گا اور اگر اس عرصے میں بھی مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے تو اس دورانیہ میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ذرائع کے بقول پہلے ہی کراچی میں بھرپور طریقے سے آپریشن نہیں چل رہا۔ کیونکہ صوبائی حکومت نے مطلوبہ اختیارات رینجرز کو نہیں دے رکھے۔ اس وقت جہاں بھی رینجرز نے ریڈ کرنی ہوتی ہے اس کے لئے پہلے صوبائی حکام کو آگاہ کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد ملزمان کو گرفتار کر کے پولیس کے حوالے کر دیا جاتا ہے۔ جس کے بعد معاملہ ختم ہو جاتا ہے۔ عموماً گرفتار افراد کے خلاف پولیس معمولی نوعیت کے مقدمات درج کر کے ان کی رہائی کا راستہ ہموار کر دیتی ہے ۔ رینجرز کے پاس گرفتار دہشت گردوں کو 90 روز حراست میں رکھ کر جے آئی ٹی بنانے کے جو اختیارات تھے وہ واپس لئے جا چکے ہیں۔ لہٰذا کراچی آپریشن پہلے ہی کمزور حالت میں چل رہا ہے اگر اس پر بھی سمجھوتہ کر لیا گیا تو پھر پیچھے باقی کیا بچے گا۔
ادھر ذرائع نے بتایا ہے کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان اصل معاملات پس پردہ طے کئے گئے ہیں۔ تحریری معاہدہ ایم کیو ایم نے محض فیس سیونگ کے لئے کیا ہے تاکہ اپنے ووٹرز کو تسلی دلا سکیں کہ وہ بغیر شرائط کے مرکزی حکومت میں شامل نہیں ہو رہے۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے پی ٹی آئی قیادت سے ملاقات کے دوران مطالبہ کیا ہے کہ نہ صرف کراچی آپریشن پر نظرثانی کی جائے بلکہ جیلوں میں قید ایسے بہت سے اسیروں کی رہائی کا کوئی راستہ نکالا جائے جو ایم کیو ایم کے بقول غلط الزامات پر گرفتار کئے گئے تھے۔ جس پر پی ٹی آئی قیادت نے ایم کیو ایم کو یقین دلایا کہ اگر آپریشن میں کسی کی حق تلفی ہوئی تو اس کا ازالہ کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے وفد نے یہ شکوہ بھی کیا کہ پچھلے چند برس سے اسے قربانی کی کھالیں وصول کرنے کی اجازت بھی نہیں دی جا رہی، اس کی دیگر سرگرمیوں پر بھی غیر اعلانیہ پابندی ہے۔ لہٰذا اس معاملے میں بھی ایم کیو ایم کو رعایت دی جائے۔ ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے وفاق میں ایک وزارت بھی مانگی ہے۔ اس کا ذکر بھی تحریری معاہدے میں موجود نہیں۔ ایم کیو ایم پورٹ اینڈ شپنگ کی منسٹری میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ اگر یہ مطالبہ تسلیم کر لیا جاتا ہے تو بابر غوری کے بجائے اس بار خالد مقبول صدیقی اس اہم وزارت کا قلمدان سنبھال سکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے وفد کا ایک اور اہم مطالبہ یہ بھی تھا کہ تحریک انصاف کراچی صوبے کے معاملے پر اس کی حمایت کرے۔ تاہم پی ٹی آئی قیادت کا موقف تھا کہ اس سلسلے میں پارٹی کے اندر مشاورت کر کے جواب دیا جائے گا۔
پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے وفود کے درمیان ہونے والی ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ اسلام آباد میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ایم کیو ایم اس وقت پیسے سے ٹوٹی ہوئی ہے۔ لہٰذا اس کی اولین کوشش یہ ہے کہ کسی طرح اسے قربانی کی کھالوں کی وصولی کے حوالے سے ماضی کی طرح فری ہینڈ مل جائے۔ عیدالضحیٰ ویسے ہی قریب ہے لہٰذا ایم کیو ایم اس سلسلے میں فوری ریلیف کی متمنی ہے۔ ذرائع کے مطابق پس پردہ مطالبات میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر عمل ممکن نہیں۔ اسی طرح تحریری معاہدے میں بھی بہت سی باتیں قابل عمل نہیں۔ پولیس ریفارمز کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ دونوں پارٹیاں مل کر کوشش کریں گی حالانکہ یہ صوبائی معاملہ ہے اور اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاق اس میں مداخلت نہیں کر سکتا۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ عمران خان کے لئے یہ اتنا آسان نہیں ہو گا کہ وہ ایم کیو ایم کی نشاندہی پر کراچی کا ہر حلقہ دوبارہ کھول دیں۔ کیونکہ دوبارہ گنتی کی صورت میں اگر چار سے پانچ سیٹیں پی ٹی آئی کے ہاتھ سے نکل گئیں تو ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو جائے گا۔ اسی طرح معاہدے میں کراچی اور حیدرآباد کے لئے وفاق کی جانب سے مالی پیکیج دینے کی بات کی گئی ہے۔ تاہم تحریک انصاف کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ وسیم اختر پہلے ہی پیپلز پارٹی سے اربوں روپے کے فنڈز لے کر کھا چکے ہیں۔ پی ٹی آئی کبھی بھی میئر کراچی کو اب مزید فنڈز نہیں دے گی۔ عام انتخابات کے بعد ویسے بھی کراچی کا مینڈیٹ تحریک انصاف کے پاس آ چکا ہے۔ اگلے برس بلدیاتی الیکشن میں اگر دوبارہ ایم کیو ایم اپنا مینڈیٹ ثابت کر دیتی ہے تو پھر ہی اس کی بلدیاتی حکومت کو فنڈز کا اجراء کیا جا سکتا ہے۔ عہدیدار کے بقول کراچی اور حیدرآباد کے ترقیاتی کاموں کے نام پر جتنے پیسوں کی توقع ایم کیو ایم کر رہی ہے اس کا پندرہ سے بیس فیصد حصہ ہی اسے مل پائے گا۔ کیونکہ فی الحال کچھ عرصے تک کے لئے پی ٹی آئی کو ایم کیو ایم کے ووٹوں کے ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کے بقول مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحریک انصاف نے ایم کیو ایم کو لالی پوپ دے دیا ہے۔ ایم کیو ایم کی مجبوری یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی دوسرا آپشن نہیں تھا کہ وہ بھیجنے والوں کو منع کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment