بزرگان دین کے ایمان افروزواقعات

قسط نمبر20

انگریزوں کے دور میں بہاولپور کی ایک عدالت میں قادیانیوں کے خلاف مقدمہ چل رہا تھا۔ اس میں دلائل دینے کے لیے مولانا انور شاہ کشمیریؒ کو بلایا گیا تھا۔ آپؒ نے عدالت میں تقریر کے دوران فرمایا:
’’جو چیز دین میں تواتر سے ثابت ہو، اس کا منکر کافر ہے۔‘‘
اس وقت قادیانیوں کے عالم نے اس پر اعتراض کیا اور کہا:
’’مولانا! آپ کو چاہیے کہ امام رازیؒ پر کفر کا فتویٰ لگائیں، کیونکہ فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت (کتاب) میں علامہ بحر العلوم نے لکھا ہے کہ امام رازیؒ نے تواتر کا انکار کیا ہے۔‘‘
اس وقت عدالت میں بڑے بڑے علماء کا مجمع تھا، یہ دلیل سن کر سب کو پریشانی لاحق ہوگئی، کیونکہ فواتح الرحموت وہاں کسی کے پاس نہیں تھی … مولانا محمد انوری بھی اس وقت موجود تھے، وہ فرماتے ہیں:
’’ہمارے پاس اتفاق سے وہ کتاب نہیں تھی، مولانا عبداللطیف صاحب ناظم مظاہر العلوم سہارن پور اور مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری تک حیران تھے کہ کیا جواب دیں، لیکن اس حیرت کے عالم میں حضرت شاہ صاحبؒ کی آواز گونجی:
’’جج صاحب! لکھئے! میں نے بتیس سال پہلے یہ کتاب دیکھی تھی… اب ہمارے پاس یہ کتاب نہیں ہے، امام رازیؒ دراصل یہ فرماتے ہیں کہ حدیث: ’’لا تجتمع امتی علی الضلال‘‘ تواتر معنوی کے رتبے کو نہیں پہنچی، لہٰذا انہوں نے اس حدیث کے متواتر معنوی ہونے کا انکار فرمایا ہے نہ کہ تواتر کے حجت ہونے کا … ان صاحب نے حوالہ پیش کرنے میں دھوکے سے کام لیا ہے، ان سے کہیں عبارت پڑھیں، ورنہ میں ان سے کتاب لے کر عبارت پڑھ دیتا ہوں۔‘‘
چنانچہ واقعی اس کا مفہوم وہی تھا، جو حضرت شاہ صاحبؒ نے بیان فرمایا تھا۔ مجمع پر سکتہ طاری ہوگیا۔ حضرت شاہ صاحبؒ نے فرمایا:
’’جج صاحب! یہ صاحب ہمیں لاجواب کرنا چاہتے ہیں، میں چونکہ طالب علم ہوں، میں نے دو چار کتابیں دیکھ رکھی ہیں، میں ان شاء اللہ لاجواب نہیں ہوں گا۔‘‘
یہ واقعہ اس لحاظ سے حد درجے حیرت انگیز ہے کہ 32 سال پہلے دیکھی ہوئی کتاب کا ایک جزوی حوالہ کس قدر پختگی کے ساتھ آپ کو یاد رہا، لیکن اس موقع پر بھی آپؒ نے اپنے آپ کو ایک طالب علم فرمایا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment