مشورے کی برکت سے جان بچ گئی

قاضی ابو یحییٰ بن مکرم بغدادیؒ فرماتے ہیں:
’’مجھے میرے والد نے بتایا کہ میرے پڑوس میں ایک آدمی رہتا تھا، جو ابو عبیدہ کے نام سے پہچانا جاتا تھا، وہ بہت بڑا ادیب تھا۔ پہلے وہ گورنر اسحاق بن ابراہیم مصبعی کا پڑوسی تھا۔‘‘ تو میرے والد کہتے ہیں: ’’ابو عبیدہ نے مجھے بتایا کہ اسحاق نے مجھے ایک دن آدھی رات کو بلوایا۔ چوں کہ مجھے اس کی بد مزاجی اور قتل میں جلدی کرنے کے بارے میں معلوم تھا، اس لیے میں گھبراہٹ اور خوف میں مبتلا ہو گیا اور مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ پر دوستی ہی دوستی میں کوئی چال نہ چل جائے یا اس کو میری طرف سے کوئی غلط بات نہ پہنچی ہو، جس کے سبب وہ بغیر کسی تفتیش کے مجھے قتل کرنے میں جلدی نہ کر دے۔‘‘
میں عقل کے گھوڑے دوڑتا ہوا نکلا، یہاں تک کہ میں اس کے گھر پہنچ گیا اور جب وہاں سے مجھے اس کے دوسرے گھر لے جایا گیا، جہاں پر وہ موجود تھا تو میری گھبراہٹ اور بڑھ گئی۔ میں اپنا اصل کام بھول گیا، مجھے اس کے پاس پہنچایا گیا اور حال یہ تھا کہ وہ ایک بارونق کمرے میں بیٹھا ہوا تھا اور اس کمرے کے چوکھٹ پر ایک عورت رو رہی تھی، پس میں اندر داخل ہوا تو وہ ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک تیز تلوار تھی تو مجھے اپنے قتل کیے جانے کا پورا یقین ہو گیا۔ میں نے سلام کیا تو اس نے اپنا سر اٹھا کر کہا: ’’بیٹھو ابوعبیدہ! یہ سن کر مجھے اطمینان ہوا اور میں بیٹھ گیا۔‘‘
اس نے میری طرف ایک تحریر پھینکی اور کہا: ’’اسے پڑھو۔‘‘
میں نے اسے پورا پڑھا تو وہ سپاہیوں کی تحریر تھی، جس میں ان میں سے ہر ایک نے اپنے دن بھر کی کارروائی اور مصروفیت ذکر کی تھی۔ اس پوری تحریر میں ایسے برے کاروبار کا ذکر کیا گیا تھا، جو کہ وزرائ، امراء اور بڑے مراتب والوں کی بیٹیوں کے متعلق پایا گیا تھا، جن کے آباء و اجداد یا تو اس دنیا سے جا چکے ہیں یا اپنے عہدوں سے مستعفی ہو چکے ہیں، کیوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو ان کے معاملات میں اجازت دیتے تھے۔
میں نے کہا: ’’میں اس تحریر کو پڑھ چکا ہوں، اب امیر مجھے کیا حکم دیتے ہیں، خدا ان کو عزت عطا فرمائے۔‘‘ تو انہوں نے کہا: ’’اے ابو عبیدہ تمہارا ناس ہو، یہ لوگ جن کی بیٹیوں کے حالات کا ذکر ابھی ہوا ہے، وہ سب یا تو مجھ سے اعلیٰ تھے یا میری ہی طرح تھے، زمانہ ان کو ان کی عورتوں کی وجہ سے اس حالت تک لے گیا، جو تم سن چکے ہو۔ مجھے یہ خدشہ ہے کہ میرے بعد میری بیٹیاں بھی اسی حال کو نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے میں نے ان سب کو جمع کیا اور وہ پانچوں اس کمرے میں ہیں۔ میں نے تو ارادہ کیا تھا کہ ان کو ابھی فوراً قتل کر دوں گا اور سکون کا سانس لوں گا، لیکن پھر مجھے انسانی ہمدردی اور خدا تعالیٰ کے خوف نے آلیا تو میں نے سوچا کہ میں اپنی رائے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تم سے مشورہ کروں یا تم مجھے ان کے بارے میں کوئی اور رائے دو‘‘۔
ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ’’حق تعالیٰ امیر کی رہنمائی کرے۔ ان عورتوں کے آباء و اجداد ان کے لیے بہت ہی آسائشیں چھوڑ گئے تھے اور شوہروں کے ذریعے ان کو پابند نہ کروایا تھا۔ سو وہ ان آسائشوں میں گم ہوگئیں اور آخر کار وہ بگڑ گئیں، اگر وہ ان کو کسی لائق انسانوں کے نکاح میں دے دیتے تو کبھی ان سے یہ باتیں صادر نہ ہوتیں۔‘‘
لہٰذا میری یہ رائے ہے کہ آپ فلاں سپہ سالار کو بلوائیں، اس کے پانچ بیٹے ہیں، وہ سب خوبصورت بھی ہیں اور خوب سیرت بھی اور اپنی بیٹیوں کی شادی ان سے کرا دو، اس طرح آپ عار اور دوزخ دونوں سے بچ جائیں گے اور آپ خدا تعالیٰ کے امر کو اور دور اندیشی کو اپنانے والے بن جائیں گے، اگر آپ نے اس طرح ان کی حفاظت میں خدا تعالیٰ کی اطاعت کا خیال رکھا تو خدا تعالیٰ آپ کی بھی ان کے بارے میں حفاظت کرے گا۔
اس نے کہا: ’’ابھی ابھی اس شخص کے پاس جاؤ (جس کے پانچ بیٹے ہیں) اور اس کے ساتھ نکاح کی تاریخ طے کرو اور اس کام میں میرا پورا ساتھ دو۔‘‘
چنانچہ میں اس آدمی کے پاس گیا اور اس کے ساتھ نکاح کی تاریخ طے کی، پھر طے شدہ تاریخ کو ان کے والدین کو بیٹوں سمیت لے کر اسحاق بن ابراہیم کے گھر آگیا اور ان لڑکوں کا اسحاق کی بیٹیوں کے ساتھ نکاح کرا دیا گیا۔ اسحاق نے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایسے گھوڑے پر سوار کرایا، جس کا کجاوہ سونے کا تھا اور ہر لڑکے نے اس مال میں سے جو ان کو دیا گیا تھا، کچھ مجھے بھی دے دیا اور اسحاق نے میرے لیے پانچ سو دینار، جوڑے اور خوشبو دینے کا حکم دیا۔
اور اسی طرح لڑکیوں کی ماؤں نے بھی مجھے تحائف اور بہت سے مال سے نوازا اور انہوں نے اپنی بیٹیوں کے قتل سے بچ جانے پر میرا شکریہ ادا کیا اور وہ خوشی کے ساتھ گزر گیا۔
جب میں اپنے گھر لوٹا تو میرے پاس تین ہزار سے کچھ زیادہ دینار تھے۔ (الفرج بعد الشدۃ و الضیقۃ، لابن جوزیؒ)

Comments (0)
Add Comment