حضرت ابو بکر صدیقؓ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد مجمع عام میں سب سے پہلی جو تقریر فرمائی، وہ اپنی سادگی، اثر اندازی اور جامعیت میں بے مثال تھی، اس سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ایک حاکم کی حکومت کی پالیسی کیا ہونی چاہئے۔ آپؓ نے فرمایا:
’’اے لوگو! بخدا! میں نے کبھی خفیہ یا اعلانیہ حکومت کی تمنا نہیں کی، میں تم پر حاکم بنایا گیا ہوں، درآں حالیکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں، اب تمہارا فرض یہ ہوگا کہ اگر میں اچھا کام کروں تو میری اطاعت کرو، لیکن اگر میں ٹیڑھا ہو جاؤں تو مجھے سیدھا کرو یاد رکھو! سچائی امانت ہے اور جھوٹ بددیانتی ہے، تم میں سے کمزور ترین آدمی بھی میرے نزدیک طاقتور ہے، جب تک کہ میں اس کا حق اسے نہ دلوا دوں اور تم میں سے قوی ترین شخص بھی میرے نزدیک کمزور ہے، جب تک کہ میں اس سے دوسروں کا حق حاصل نہ کر لوں، یاد رکھو! جو قوم خدا کی راہ میں جہاد کرنا چھوڑ دیتی ہے، خدا تعالیٰ اسے ذلیل و خوار کر دیتے ہیں اور جس قوم میں بد کاری پھیل جاتی ہے، خدا اسے کسی مصیبت میں گرفتار کر دیتا ہے۔‘‘ (سچی اسلامی کہانیاں، ص 10)
پانچ عیوب!
حضرت شفیق بلخیؒ سے ایک شخص نے عرض کی کہ حضرت! میں آپ کو کچھ ہدیہ کرنا چاہتا ہوں، تاکہ آپ اس سے اپنی ضروریات خرید سکیں۔
آپ نے فرمایا: اگر تم میں پانچ عیوب نہ ہوتے تو میں آپ کا ہدیہ قبول کرلیتا، ایک یہ کہ ایسا کرنے سے تمہارا مال کم ہوجائے گا، دوسرے اس بات کا امکان ہے کہ چور میرے پاس سے تمہارا ہدیہ چوری کرلیں گے، تیسرے یہ کہ ہوسکتا ہے کہ تم پشیمان ہوجائو، چوتھے اس بات کا امکان ہے کہ شاید تم مجھ میں کوئی عیب دیکھو تو کہو کہ میرا مال واپس دے دو، پانچویں یہ کہ کیا عجب ہے جب تمہاری موت آجائے اور میں بے سروسامان ہو جائوں، لیکن میرا ایک خدا ہے جو ان تمام عیوب سے پاک ہے، اس لئے میں اپنے رب سے مانگتا رہتا ہوں۔ (مخزن اخلاق)