کلام الہی کی اثر انگیزی

ثمر بار اور چشمہ دار:
ولید بن مغیرہ سرداران مکہ میں امیر ترین آدمی تھا۔ اپنے کفر و عناد میں دوسرے سرداروں سے پیچھے نہ تھا۔ اس کی مذمت میں قرآن مجید کی متعدد آیات بھی اتریں۔
ایک مرتبہ رسول اقدسؐ نے اسے قرآن پڑھ کر سنایا، جس سے بہت متاثر ہوا، دل پر رقت طاری ہوگئی۔ ابو جہل یہ دیکھ کر غصے ہوا اور ولید کو طعن و تشنیع کی۔ ولید نے جواب میں کہا:
ترجمہ: ’’خدا کی قسم! تم لوگوں میں مجھ سے بڑھ کر کوئی شخص اشعار رجز، قصیدہ اور جن (وشیاطین) کے اشعار (عرض تمام اصناف شعر) کو جاننے والا نہیں اور (میری شہادت یہ ہے کہ) خدا کی قسم! محمدؐ کا لایا ہوا کلام ان اصناف شعر میں سے کسی صنف کے مشابہ نہیں اور خدا کی قسم! محمدؐ جو کلام پڑھتے ہیں، اس میں عجب حلاوت و شیرینی ہے۔ اس پر (ایک خاص) طراوت و تازگی ہے اور وہ کلام اوپر سے ثمر بار اور نیچے سے چشمہ دار ہے۔ یقیناً وہ کلام غالب آکر رہے گا، کبھی مغلوب نہ ہوگا۔‘‘
ایک دوسری روایت میں اس سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں:
ترجمہ: ’’خدا کی قسم! وہ نہ شعر ہے نہ سحر، نہ ہی مجنون کی بڑ، ان کا لایا ہوا کلام تو خدا کا کلام ہے۔‘‘ (الخصائص الکبریٰ للجلال السیوطی: 189/1)
ایں چیزے دیگر است:
نضر بن حارث مکہ کا مشہور تاجر تھا۔ قرآن اور رسول اقدسؐ کی ذات والا سے دشمنی اس کی گھٹی میں پڑی تھی۔ آپؐ کی ایذاء رسانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتا۔ قرآن مجید کی آیت (ومن الناس … تا… لھو الحدیث) (سورۃ لقمان) بھی اسی کے متعلق نازل ہوئی، قرآن مجید سے حد درجہ بغض و عداوت رکھنے کے باوجود قرآن کی عظمت کا اس نے برملا اعتراف کیا۔ چنانچہ ایک موقع پر سرداران قریش سے خطاب کرتے ہوئے اس نے کہا:
اے گروہ قریش! بخدا (محمدؐ کی شکل میں) تم پر ایک ایسی آزمائش آگئی ہے جس سے تم پہلے کبھی دوچار نہیں ہوئے۔ دیکھو محمدؐ آغاز شباب سے ہی تم میں ایک پسندیدہ ترین، گفتگو میں راست ترین اور امانت و دیانت میں بزرک ترین انسان تھے۔ اب جبکہ تم لوگوں نے ان کی کنپٹی کے بالوں میں سفیدی دیکھی اور وہ تمہارے پاس قرآن لے کر آئے تو تم کہتے ہو، یہ جادوگر ہیں۔ نہیں بخدا! وہ جادوگر نہیں۔ ہم نے جادوگر دیکھے، ان کے جادو منتر بھی دیکھے اور تم کہتے ہو: وہ کاہن اور غیب دان ہیں۔ نہیں، بخدا! وہ کاہن بھی نہیں، ہم نے کاہن دیکھے ہیں، ان کا حال خوب دیکھا ہے، ان کا مسجع کلام بھی سنا ہے اور تم کہتے ہو: وہ شاعر ہیں۔ نہیں، بخدا! وہ شاعر بھی نہیں، ہم نے خود شعر گوئی کی ہے اور اصناف شعر رجز وغیرہ بھی سنے ہیں اور تم کہتے ہو: وہ مجنون ہیں۔ نہیں، بخدا! وہ مجنون بھی نہیں۔ (ایں چیز دے دیگر است) (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 320/1،
الخصاص الکبریٰ: 190/1)
مشرک کی پیش گوئی:
مکہ کا معروف سردار عتبہ بن ربیعہ پورے قریش کا نمائندہ بن کر گفتگو کے لئے رسول اقدسؐ کی خدمت میں آیا اور آپؐ کو مال و دولت، حکومت و سیادت اور علاج معالجہ کی پیشکش کی، آپؐ نے جواب میں ’’سورۃ حم السجدۃ‘‘ کی تلاوت فرمائی، جسے عتبہ ہمہ تن گوش ہوکر سنتا رہا۔ قرآن مجید سن کر جب واپس گیا تو اس کے ساتھی دور سے ہی دیکھ کر کہ اس کے تیور بدلے ہوئے ہیں، فکر مند ہوگئے، وہ جوں ہی مجلس میں پہنچا، سب سے یک زبان ہو کر پوچھا: ’’ابو الولید! کیا خبر لائے؟‘‘
عتبہ نے اپنے تاثرات ان الفاظ میں بیان کئے:
میری خبر یہ ہے کہ میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ خدا کی قسم! اس جیسا کلام کبھی نہیں سنا۔ خدا کی قسم! نہ وہ شعر ہے نہ جادو اور نہ کہانت۔ اے گروہ قریش! میرا کہا مان لو۔ اس کو مجھ پر چھوڑ دو اور اس شخص کا راستہ چھوڑ دو، اس کے کام میں خلل نہ ڈالو، تم اس سے الگ ہو جاؤ۔ خدا کی قسم! میں نے جو اس سے کلام سنا ہے، اس کی بڑی شان ظاہر ہونے والی ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام: 313/1، الخصائص الکبریٰ: 191/1)(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment