نیکی کبھی ضائع نہیں ہوتی

مخلوق خدا کے ساتھ احسان اور اکرام کا معاملہ کرنا بہترین صفت اور خدا تعالیٰ کی محبت کا ذریعہ ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ’’اور نیکی اختیار کرو بے شک خدا نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: 190)
خلیفہ ہادی اپنے بھائی ہارون الرشید سے اس بات کا مطالبہ کرتا تھا کہ وہ خلافت کے مطالبے سے دست بردار ہو جائے، تاکہ اس کے بعد وہ اپنے بیٹے کی خلافت کا اعلان کر دے، مگر ہارون الرشید اس کی بات کا جواب نہیں دیتے تھے۔
ہادی نے ’’یحییٰ برمکی‘‘ کو بلوایا اور ان کی چاپلوسی کرنے لگا کہ کسی طرح بھی ہارون کو اس پر تیار کریں کہ وہ خلافت کے حق کو چھوڑ دے، مگر انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا تو ہادی غصے میں آگیا اور انہیں ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا، یہاں تک کہ ان کے درمیان کافی بات بگڑ گئی اور نوبت ہلاکت تک پہنچ گئی، مگر یحییٰ اپنے دوست ہارون الرشید کی مدافعت ہی کرتے رہے۔
نہ ہارون الرشید نے دست برداری کا کہا اور نہ یحییٰ برمکی نے کوئی تسلی دلائی اور معاملہ یوں ہی چلتا رہا، یہاں تک کہ ہادی بیمار ہوا (اور اسی بیماری میں اس کا انتقال ہوگیا) جب اس کی بیماری کافی شدت اختیار کر گئی تو اس نے یحییٰ کو بلایا اور کہا:
’’تمہارے ساتھی نے مجھے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچایا، میرے بھائی (ہارون الرشید) کو تم نے خراب کیا اور میرے خلاف اکسایا، جس کی وجہ سے وہ میری چاہت پوری کرنے سے رکا۔ خدا کی قسم! میں تمہیں ضرور قتل کرواؤں گا۔‘‘
پھر اس نے جلاد کو بلوایا اور تلوار اور چمڑا بھی منگوایا۔ یحییٰ نے قتل ہونے کے لیے خود ہی اپنی گردن جھکا دی۔
ابراہیم بن ذکوان حرانی نے عرض کیا: ’’امیر المومنین! یحییٰ کا میرے اوپر ایک احسان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اسے بدلہ دے دوں، صرف ایک رات کے لیے اسے مجھے ہبہ کر دیں، پھر کل جو مرضی چاہیں، کر لیں!‘‘
خلیفہ نے کہا: ’’ایک رات سے تمہیں کیا فائدہ حاصل ہو گا؟‘‘
ابراہیم حرانی: ’’ممکن ہے کہ وہ خلافت کے سلسلے میں آپ کے بھائی کو بیٹے کے حق میں دست بردار کرا دے۔‘‘
ہادی نے منظور کر لیا۔
یحییٰ کہتے ہیں: ’’مجھے چمڑے سے اٹھایا گیا، حالانکہ موت میرے سر پر جھول رہی تھی اور آئندہ کے لیے مجھے پختہ یقین تھا کہ میری زندگی کا چراغ گل ہونے میں صرف ایک ہی رات باقی رہ گئی ہے، اسی خوف کی وجہ سے پوری رات نیند کا ایک جھونکا بھی نہیں آیا۔ صبح جب میں نے تالوں کے کھلنے کی آواز سنی تو مجھے کوئی شک ہی نہیں رہا کہ عنقریب مجھ پر موت کا رقص ہونے والا ہے۔ ایک خادم اندر داخل ہوا اور کہنے لگا:
’’ملکہ نے آپ کو بلایا ہے۔‘‘
(واضح رہے کہ پر سکون نیند خدا تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، جب کبھی رات کو بستر پر جاکر نیند نہ آرہی ہو تو یہ مسنون دعا پڑھنا نہاہت ہی مفید ہے:
ترجمہ: ’’الٰہی! ستارے چھپ گئے اور آنکھیں آرام لینے لگیں، تو ہمیشہ زندہ زندہ والا اور سنبھالنے والا ہے، تجھ کو اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ اے زندہ، ہمیشہ، سنبھالنے والے! مجھے آرام دے اور میری آنکھ کو سلا دے۔‘‘) (ابن سنی، الرقم: 244)
میں نے کہا: ’’ ملکہ کو مجھ سے کیا کام؟‘‘
کہنے لگا: ’’بس وہ آپ کو بلا رہی ہیں، لہٰذا جلدی کیجئے!‘‘
میں اٹھا اور ’’خیرزان‘‘ (ملکہ) کے پاس تیزی سے پہنچا۔
وہ کہنے لگی: ’’ہادی کا انتقال ہوگیا ہے اور ان کے بھائی ہارون الرشید کو آپ یہاں لے کر آئیں، کیوں کہ ان کو آپ ہی لا سکتے ہیں۔‘‘
میں نے اپنی آنکھوں سے اس کی لاش کو جب دیکھا تو خدا تعالیٰ کا بے پناہ شکریہ ادا کیا کہ کس طرح اس نے ایک رات کے فاصلے کو میری زندگی کا سامان بنا دیا۔ پھر تیزی سے ہارون الرشید کی طرف لپکا تو وہ سوئے ہوئے تھے، میں نے انہیں بیدار کیا۔
اتنی رات گئے اس طرح اپنے سامنے پا کر وہ تعجب کا اظہار کرنے لگے اور پوچھا: ’’تیرا ناس ہو! کیا ہوا؟‘‘
میں نے جواب میں عرض کیا: ’’اٹھئے امیر المومنین! اور آیئے دارالخلافہ کی طرف!‘‘
کہنے لگے: ’’کیا ہادی کا انتقال ہو گیا ہے؟‘‘
میں نے کہا: ’’جی ہاں!‘‘
کہنے لگے: ’’خدا کا شکر! جلدی سے میری پوشاک لاؤ!‘‘
یحییٰ برمکی کہتے ہیں: ’’ابھی وہ لباس پہن ہی رہے تھے کہ اسی دوران میری جان پہچان کا ایک آدمی آیا اور مجھے خبر دی کہ ہارون کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی ہے، جس کا نام ’’عبداللہ‘‘ رکھا گیا ہے اور یاد رہے کہ یہی وہ عبد اللہ ہے جسے دنیا ’’خلیفہ مامون الرشید‘‘ سے جانتی ہے۔ ہارون الرشید جلدی سے باہر آئے اور ہم دارالخلافہ آگئے۔
میں نے آج بھی جب اس رات کو سوچتا ہوں تو حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ کیسی عجیب رات تھی کہ اسی رات میں ایک خلیفہ (ہادی) کا انتقال ہوا، ایک خلیفہ (ہارون الرشید) بنا اور ایک خلیفہ (مامون الرشید) پیدا ہوا۔
یہ قدرت کی شان ہے، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، فیصلہ اور چاہت تو اسی کی چلتی ہے، خدا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور تم چاہو گے نہیں جب تک خدا نہ چاہے اور خدا علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔‘‘ (سورۃ الدھر: 30) (راحت پانے والے، تصنیف ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض سعودی عرب)

Comments (0)
Add Comment