سرفروش

قسط نمبر78
عباس ثاقب
میں نے سڑک کے کنارے موٹر سائیکل روک لی۔ ہرمندر سنگھ کی حویلی والی ویگن جوں کی توں ترچھی کھڑی تھی۔ اس اثنا میں جیپ بھی عین میرے پیچھے آکر رک گئی۔ مسلح کارندے نے بدستور مجھ پر بندوق تان رکھی تھی۔ پریتو بغور صورتِ حال کا جائزہ لے رہی تھی۔ ’’گڈی وچ نے او سارے؟‘‘۔ اس نے گمبھیر لہجے میں پوچھا۔
میں نے کہا ’’نہیں، وہ اس گنے کے کھیت کے ایک گوشے میں ہیں۔ ہم نے ان کے ہاتھ پیر باندھ رکھے ہیں۔ میں وہاں کھیت کے کنارے جاکر ظہیر کو آواز دے کر معاملہ سمجھاؤں گا۔ وہ سردار جی اور سورن سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ آپ اپنے بندے کو بھیج کر ان کی موجودگی کی تسلی کرلیں۔ پھر ہم دونوں موٹر سائیکل پر یہاں سے نکل جائیں گے۔ اس کے بعد آپ لوگ انہیں کھیت سے نکال کر لے جانا۔ لیکن ہمارا راستہ روکنے کی کوشش نہ کرنا۔ ظہیر کے پاس بھی بھری ہوئی بندوق موجود ہے‘‘۔
پریتو نے اطمینان دلایا کہ ایسے ہی ہوگا۔ میں موٹر سائیکل کی چابی اپنے قبضے میں کرتے ہوئے ویگن کی طرف بڑھا اور کھیت کے کنارے کھڑے ہوکر ظہیر کو آواز لگائی۔ اچانک مجھے لگا کہ میں نے بکرم سنگھ کی پکار سنی ہے۔ وہ مدد کی التجا کر رہا تھا۔ توجہ سے سننے پر تصدیق ہوگئی۔ میرا دل زور سے دھڑکا۔ اگر یہ آواز پریتو اور اس کے کارندوں تک پہنچ گئی تو سارے کیے کرائے پر پانی پھر سکتا ہے۔
’’ظہیر، ان دونوں کو وہیں چھوڑ کر کھیت کے بڑی سڑک والے کنارے سے باہر نکل آؤ، جلدی!‘‘۔ میں نے زور سے آواز لگائی۔ کچھ سننے کا ناٹک کرنے کے بعد میں نے کہا ’’یار تفصیل بعد میں بتاؤں گا۔ ہمیں فوراً یہاں سے نکلنا ہے۔ لیکن تمہیں بڑی سڑک کی طرف سے کھیت سے نکلنا ہے۔ میں وہاں ایک موٹر سائیکل پر تیار ملوں گا‘‘۔
میں نے پھر کچھ سننے کی ایکٹنگ کی اور ایک بار پھر بکرم سنگھ کی مدد کی پکار سنی۔ اس بار اس کی آواز کافی بلند تھی۔ میں نے جیپ کی طرف اشارہ کر کے پریتو کو اپنا بندوق بردار کارندہ میرے پاس بھیجنے کو کہا۔ جواباً اس نے دونوں کو میری طرف بھیج دیا۔ میں نے انہیں کھیت کی طرف منہ کر کے بکرم سنگھ کو آواز دینے کو کہا۔ بندوق والے نے میری ہدایت کے مطابق زور سے آواز لگائی ’’سردار جی، تُسی اُتھے او؟ میں بلونت ہاں!‘‘۔ (سردار آپ وہاں ہیں؟ میں بلونت ہوں)۔
جواب میں بکرم نے ایک بار پھر مدد کا نعرہ لگایا۔ اس پر دونوں کارندوں نے زوردار نعرہ لگا کر پریتو کو بتایا کہ انہوں نے سردار بکرم کو زندہ سلامت ’’لبھ‘‘ لیا ہے اور اسے لینے کھیت کے اندر جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی میں تیزی سے جیپ کی طرف بڑھا۔ اس دوران پریتو بھی اترکر بے تابی سے کھیت کے اس حصے کی طرف بڑھ رہی تھی، جہاں سے اس کے ملازم گنے کی فصل میں داخل ہو چکے تھے۔
میں نے پاس پہنچنے پر سردارنی سے کہا ’’پریتو بھابھی، ظہیر کا مذہب الگ سہی، لیکن وہ بہت اچھا لڑکا ہے اور سندری کو ہمیشہ خوش رکھے گا۔ میری التجا ہے کہ اپنے دل سے مذہبی نفرت کی سیاہی نکال کر اسے قبول کرلیں!‘‘۔ میں نے اپنے لہجے میں ہر ممکن اثر لانے کی کوشش کی، لیکن اس وقت اس کا سارا دھیان اپنے شوہر کی طرف تھا۔
میں اسے اس کے حال پر چھوڑ کر تیزی سے موٹر سائیکل کی طرف بڑھا اور کک لگا کر اسے تنگوالی کی طرف دوڑا دیا۔ مجھے یقین تھا کہ پریتو کو ظہیر کی عدم موجودگی بھانپنے کا موقع نہیں ملا ہوگا۔ اگر مل بھی گیا ہو تو مجھے کیا فرق پڑتا؟۔
رات کے اس آخری پہر سڑک پر اکا دکا ٹرک کے علاوہ لگ بھگ مکمل سناٹا تھا، لہٰذا مجھے تیز رفتاری سے موٹر سائیکل بھگانے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ البتہ یہ دھڑکا ضرور لگا ہوا تھا کہ کہیں راستے میں کوئی پولیس چوکی نہ آجائے۔ میں کسی ناکے پر نظروں میں آنے کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
خوش قسمتی سے میں بغیر کسی گڑبڑ کے تنگوالی سے آنے والی شاہراہ پر پہنچ گیا۔ میں نے موٹر سائیکل کا رخ دائیں طرف موڑ دیا تھا۔ اب مجھے راستے میں زیادہ گاڑیاں مل رہی تھیں۔ البتہ ابھی تک کوئی مسافر بس نظر نہیں آئی تھی۔ جیسے جیسے فاصلہ طے ہو رہا تھا، میرے اعصابی تناؤ میں بھی کمی آرہی تھی۔ میں دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا کہ ظہیر کے مفروضہ وجود والی کہانی کھلے گی تو سردارنی کی کیا حالت ہوگی۔ البتہ اب اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں میاں بیوی حقیقی معنوں میں ہمارے خون کے پیاسے ہوگئے ہوں گے اور ظہیر کے لیے سندری کا حصول مزید مشکل ہوچکا ہے۔
تنگوالی سے کوٹ فتح تک کا فاصلہ میں نے لگ بھگ پندرہ منٹ میں طے کیا اور وہاں کھڑے ایک ٹرک کے ڈرائیور کی رہنمائی سے میں تقریباً ایک گھنٹے میں مانسا نامی قصبے پہنچ گیا۔ اس دوران میں سورج پوری طرح طلوع ہو چکا تھا۔ میں نے موٹر سائیکل ایک ڈھابے کے عقب میں کھڑی کی اور وہاں سے فتح آباد جانے والی ایک مسافر بس میں سوار ہو گیا۔ لگ بھگ تین گھنٹے کے بیزار کن سفر کے بعد ہریانہ کے اس پُر رونق قصبے پہنچنے کے بعد میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ میں پنجاب میں قدم قدم پر منڈلاتے خطرات کو کافی پیچھے چھوڑ آیا تھا۔ اور سب سے اطمینان بخش بات یہ تھی کہ بالآخر میں نے اپنی جدوجہد کا نتیجہ، ہلواڑا ایئر بیس کا نقشہ بھی ساتھ لانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment