ترکی نے گانوں کےیورپی مقابلوں کا بائیکاٹ کردیا

سدھارتھ شری واستو
ترکی نے گیتوں کے مقابلے کے نام پر بے حیائی پھیلانے والے ’’یورو ویژن کامپٹیشن‘‘ کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ غیر اخلاقی ہونے کے باعث ترکی میں کوئی بھی براڈ کاسٹنگ ادارہ ’’یورو ویژن کامپٹیشن‘‘ کو ٹیلی کاسٹ نہیں کرے گا۔ 2010ء سے شو کے ججز کی غیر جانبداری پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں، جو مخصوص ممالک کے مغنی اور مغنیائوں کو کامیاب کرواتے رہے ہیں۔
ترکی کی حکومت نے پرتگال کے شہر میں منعقد ہونے والے گیتوں کے یورپی مقابلوں کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ مقابلے اخلاقیات سے عاری ہیں۔ اس لئے ترک نہ صرف ان مقابلوں کا بائیکاٹ کر رہا ہے، بلکہ کوئی بھی ترک مغنی یا مغنیہ ان مقابلوں میں شریک نہیں ہوگا۔ یورپی میڈیا نے بتایا ہے کہ ترکی کے بائیکاٹ کی وجوہات میں ان مقابلوں میں شریک ایست گلوکار اور گلوکارائیں شامل ہیں جن کا لباس اور اطوار سمیت ان کی حرکتیں انتہائی قابل اعتراض ہیں۔ جبکہ ذو معنی الفاظ سے بھی ترکی کی نئی نسل کے اخلاق خراب ہوجانے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، جس کے بارے میں ترک وزارت دیانت کے بعض سرکردہ علمائے دین کا کہنا ہے کہ ’’یورو ویژن گیر مقابلے‘‘ کی ٹائمنگ انتہائی خراب ہے اور اس کو اس وقت لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے جب ترک بچے اپنی تعلیمی مصروفیات کے بعد فارغ ہوکر نماز مغرب کی تیاریاں کررہے ہوتے ہیں۔ ترک قوم کی دلوں کی دھڑکن کہلائے جانے والے ہر دل عزیز صدر رجب طیب اردگان نے ان مقابلوں میں شرکت سے احتراز اور ترکی میں بائیکاٹ کے حوالے سے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ مقابلے ترک نسل کو خراب کرنے کیلئے کئے جارہے ہیں۔ جبکہ ترک ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن اتھارٹی نے بھی بچوں کے اخلاق حسنہ کی تباہی کے خدشے کے پیش نظر یورو وژن گیت مقابلہ2018ء کا بائیکاٹ کیا ہے۔ اس سلسلے میں ترک ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن اتھارٹی کے ڈائریکٹر جناب ابراہیم ایرن کا موقف ہے کہ بائیکاٹ کا ترک فیصلہ درست ہے۔ کیونکہ اخلاقی اعتبار سے یورو ویژن گیت مقابلہ 2018ء میں خرابیاں در آئی ہیں۔ ترک گلوکاروں کو یہ اعتراض بھی ہے کہ جج حضرات منصفانہ طور پر ووٹنگ نہیں کرواتے اور گیتوں کے مقابلوں میں مغنی حضرات کو ووٹ دینے کا طریقہ کار ناقص اور کسی حد تک متعصبانہ ہے۔ 2010ء سے اب تک صرف پانچ ممالک جرمنی، اسپین، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے گلوکارائوں کو ہی آگے لایا جاتا رہا ہے۔ واضح رہے کہ 2014ء سے ان مقابلوں میں آسٹریا سے تعلق رکھنے والا ایک عورت نما خواجہ سرا بھی شامل ہے، جس نے اگرچہ داڑھی رکھی ہوئی ہے، لیکن اس کی ظاہری نمود عورتوں والی ہے۔ اس ہیجڑے نے خود کو ’’ٹو اِن ون‘‘ قرار دیا ہے۔ ترک حکومت کا واضح موقف ہے کہ اس قسم کی نازیبا حرکتیں عالمی گیتوں کے مقابلوں میں کسی کو زیب نہیں دیتیں۔ جبکہ ترک براڈ کاسٹنگ اداروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ لاکھوں ترک والدین نے ان مقابلوں کے انعقاد اور ترکی میں لائیو ٹرانس مشن کی مخالفت کی ہے۔ والدین نے کہا ہے کہ مغربی تہذیب و ثقافت کے منفی اثرات سے ان کے بچوں کو محفوظ رکھنے میں مدد کی جائے۔ ادھر یورو وژن گیت مقابلوں کے حوالے سے ترک اتھارٹیز نے اقوام عالم کو یاد دلایا ہے کہ ترکی ایک روشن خیال ملک ہے اور ماضی میں بھی یورو وژن گیت مقابلوں کا ترکی ہی میں انعقاد کیا گیا تھا۔ 2003ء اور 2004ء میں ترکی میں یہ مقابلے مسلسل منعقد ہوئے تھے۔ لیکن 2012ء میں ترکی نے پہلی بار ان مقابلوں کا بائیکاٹ اس لئے بھی کیا کہ ان مقابلوں سے چھوٹے بچوں پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بچے تعلیم سے دور ہوجاتے ہیں۔ واضح رہے کہ ترکی ماضی میں ان مقابلوں میں اپنے موسیقار مغنی/ مغنیائوں کو شمولیت کیلئے بھیجتا تھا۔ لیکن جب سے ان مقابلوں میں غیر اخلاقی طرز پروان چڑھا ہے، تب سے رجب طیب اردگان ان مقابلوں میں ترک گلوکارائوں کی شرکت کے حق میں نہیں ہیں اور 2012ء سے ان مقابلوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ اگرچہ اس ضمن میں مختلف ممالک نے ترک حکومت سے کہا ہے کہ وہ اپنے مغنی حضرات کو ان مقابلوں میں شرکت کیلئے نامزد کریں اور بائیکاٹ ختم کردیں۔ لیکن ترک حکومت نے واضح اور دو ٹوک موقف اپنایا ہے اور کہا ہے کہ غیر اخلاقی حرکتوں کو ختم کردیا جائے تو ترکی بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لے لے گا۔ لیکن یورو وژن گیت مقابلہ کے منتظمین اس سلسلہ میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پر رضامند دکھائی نہیں دیتے، جس کی وجہ سے ترکی کے ساتھ ساتھ کئی اور ممالک نے بھی ترک موقف کو درست قرار دیا ہے۔

Comments (0)
Add Comment