نجم الحسن عارف
ملی مسلم لیگ کی اعلیٰ قیادت اور اس کے حمایت یافتہ قومی و صوبائی اسمبلی کے ہارنے والے امیدواروں میں سے کئی امیدوار یہ سمجھتے ہیں کہ ووٹ کم نکلے ہیں، تاہم وہ اس بارے میں روایتی سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کی طرح شور نہیں کریں گے۔ ملی مسلم لیگ اپنی ساری توانائیاں اب دو سال بعد ہونے والے بلدیاتی انتخابات پر لگائے گی۔ ذرائع کے مطابق جماعۃ الدعوہ نے بھی ملی مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اللہ اکبر تحریک کے ٹکٹ ہولڈرز کی حمایت کرنے کے علاوہ کئی ایسے امیدواروں کی بھی حمایت کی تھی، جن کے پاس تحریک اللہ اکبر کا ٹکٹ نہیں تھا۔ ان تمام امیدواروں نے ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 16 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کئے۔ جبکہ تحریک اللہ اکبر کے ٹکٹ ہولڈر امیدواروں کو ساڑھے چار لاکھ کے قریب ووٹ ملے ہیں۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ ملی مسلم لیگ کی جانب سے چند روز قبل شکست کھانے والے امیدواروں کے بلائے گئے کنونشن میں بھی بہت کم افراد نے کسی دھاندلی یا ہیرا پھیری کا ذکر کیا۔ اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ چونکہ انہیں ٹکٹ آخری وقت پر ملے اور انتخابی مہم کیلئے محض تین ہفتے ملے، اس لیے ان کے ووٹ کم رہے۔ اگر انہوں نے بھی دوسری سیاسی جماعتوں کی طرح پانچ سال تک اس الیکشن کی تیاری کی ہوتی تو وہ بھی کئی گنا زیادہ ووٹ حاصل کرتے اور پارلیمنٹ میں معقول نشستیں رکھنے والی جماعت کے طور پر سامنے آتے۔ واضح رہے کہ ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار جنہوں نے تحریک اللہ اکبر کے نشان پر الیکشن لڑا، ان میں قومی اسمبلی کے امیدواروں کی تعداد 72 اور صوبائی اسمبلیوں کے امیدواروں کی مجموعی تعداد 186 تھی۔ پنجاب اسمبلی کیلئے 125 امیدوار کرسی کے نشان پر لڑے۔ سندھ اسمبلی کے لیے 32 امیدوار سامنے لائے گئے۔ خیبرپختون سے 19 امیدوار اور صوبہ بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کیلئے 10 امیدواروں نے انتخاب لڑا۔ تاہم کہیں سے بھی کوئی امیدوار جیت نہیں سکا۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس کی سب سے اہم وجہ پہلی بار باضابطہ طور پر عام انتخابات میں میدان میں اترنا تھا۔ جبکہ ملی مسلم لیگ کی رجسٹریشن نہ ہو سکنے اور بعد ازاں 27 جون کو آخری وقت تک ٹکٹوں کا اجرا جاری رہنا، اہم سبب بنے کہ حافظ محمد سعید اور ان کے رفقا آخر وقت تک امیدواروں کے چنائو کیلئے تگ و دو کرتے رہے۔ بہت سارے امیدواروں کے ٹکٹ 25 جون کو آخری روز فائنل ہوئے، جس کے بعد ان امیدواروں کو صرف تین ہفتے مہم چلانے کیلئے ملے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع نے ملی مسلم لیگ کی انتخابی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی ہے کہ عوام نے فی الحال اس جماعت کو ایک سنجیدہ جماعت کے طور پر قبول ہی نہیں کیا تھا۔ اس کے حمایت یافتہ امیدواروں کو جگہ جگہ ایسے سوالوں کا سامنا کرنا پڑتا، جس سے صاف نظر آتا تھا کہ لوگ ابھی اس جماعت کو ایک مستقل اور سنجیدہ جماعت کے طور پر نہیں دیکھتے ہیں۔ اس طرح امیدواروں کا نام آخری وقت پر فائنل ہونا اور عوام کی جانب سے سنجیدہ توجہ نہ دینے کے علاوہ ایک اور وجہ شکست کی یہ بنی کہ اس کے امیدواروں کو پارٹی کی طرف سے اشتہاری اور ابلاغی میدان میں کوئی خاص مدد نہ مل سکی۔ حالانکہ اس سے پہلے پارٹی قیادت نے یقین دلا رکھا تھا کہ اس سلسلے میں پارٹی پوری مدد کرے گی۔ دوسری جانب ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ امیدوار اور اس کے ذمہ دار اس امر سے قطعاً پریشان نہیں ہیں کہ پورے ملک سے ایک بھی سیٹ حاصل نہیں ہو سکی۔ بلکہ وہ مطمئن ہیں کہ انہیں زمینی حقائق کا خوب اندازہ ہوا ہے اور اگلے عام انتخابات میں اور ان سے پہلے ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں بہتر حکمت عملی اختیار کر سکیں گے۔ ذرائع کے مطابق حافظ محمد سعید نے اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو یقین دلا دیا ہے کہ اگلے بلدیاتی انتخابات میں بھی ان امیدواروں کا کردار اہم ترین ہو گا۔ اس لیے ابھی سے بلدیاتی انتخابات کی تیاری کی جائے۔ ان ذرائع کے مطابق حافظ محمد سعید نے اپنے امیدواروں کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کا پہلا الیکشن تھا۔ اس کے باوجود امیدواروں اور کارکنوں نے خود محنت کی۔ اس سلسلے میں جماعۃ الدعوہ کے ترجمان یحییٰ مجاہد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ تحریک اللہ اکبر کے امیدواروں نے تھوڑے وقت کے باوجود بھرپور انداز میں انتخابی مہم حصہ لیا۔ ہمارے امیدواروں اور کارکنوں نے بڑے حوصلے سے اپنی مہم چلائی اور ووٹر تک اپنی بات پہنچائی اور شدید دبائو کے باوجود میدان میں جم کر کھڑے رہے۔ لوگوں کے پہلی بار ہی اچھے رسپانس سے صاف نظر آرہا ہے کہ اگلے عام انتخابات تک ہم ایک بڑی سیاسی جماعت کے انداز میں خود کو پیش کر سکیں گے۔ اگر کہیں ہمارے امیدواروں کے ساتھ کسی طرح کی کوئی گڑبڑ ہوئی بھی ہے تو ہم اس میں الجھ کر پورے سسٹم کو چلنے سے روک دینے کے حامی نہیں، بلکہ مزید کوشش کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی ہماری قیادت کا ویژن ہے اور یہی ہمارے کارکنوں کا عزم ہے۔‘‘