خیبر پختون میں کھٹارابسیں موت بانٹنیں لگیں

امت رپورٹ
خیبر پختون میں کھٹارا بسیں موت بانٹنے لگیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کے اہلکار مسافر گاڑیوں کو چیک کئے بغیر روٹ پرمٹ جاری کر رہے ہیں۔ کوہاٹ میں حادثے کا شکار بس کے مسافر بونیر، شانگلہ اور دیگر علاقوں میں اپنے ووٹ ڈالنے کے بعد واپس کراچی جا رہے تھے۔ حادثے میں جاں بحق اور زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ لواحقین نے حکومت سے کھٹارا گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر دیا۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق خیبر پختون میں آئے روز انڈس ہائی وے پر مسافر گاڑیاں حادثات کا شکار ہو رہی ہیں اور اس کا سبب صوبے کے محکمہ ٹرانسپورٹ کی غفلت ہے، جس کے اہلکار ان گاڑیوں کو چیک کئے بغیر روٹ پرمٹ جاری کر رہے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پشاور سمیت صوبے کے دیگر بڑے شہروں میں انتظامیہ کی جانب سے سخت اقدامات اٹھائے جانے کے بعد کھٹارا بس مالکان نے پسماندہ شہروں کا رخ کرلیا ہے۔ دیر اپر، دیر لوئر، شانگلہ، باجوڑ اور بونیر میں ایسی مسافر گاڑیوں کی بہتات ہے، جن کی باہر سے تو سجاوٹ کر دی جاتی ہے، لیکن ان گاڑیوں کے انجن سمیت دیگر اہم پرزے کسی کام کے نہیں ہوتے اور نہ محکمہ ٹرانسپورٹ کے اہلکار ان مسافر گاڑیوں کو چیک کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق خیبر پختون سے کراچی جانے والی ڈائیوو سروس سمیت نیازی اور بلال ایکسپریس جیسی ٹرانسپورٹ کمپنیوں نے نئی بسیں چلانا شروع کر دی ہیں، لیکن یہ بسیں موٹر وے کے ذریعے جھنگ، ملتان اور پھر سکھر پر نیشنل ہائی وے سے کراچی پہنچتی ہیں۔ جبکہ کھٹارا بس مالکان کم کرائے کا لالچ دے کر اور بسوں کے اوپر جنگلوں پر لوگوں کو بٹھا کر ان کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں۔ کوہاٹ میں لاچی کے مقام پر حادثے کا شکار ہونے والی بس بھی ایسی ہی گاڑیوں میں سے ایک ہے۔ بدقسمت بس کے بیشتر مسافر جن کا تعلق شانگلہ، بونیر، تخت بھائی سمیت دیگر علاقوں سے ہے، حالیہ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کیلئے اہلخانہ سمیت اپنے آبائی علاقوں کو آئے تھے اور اب واپس کراچی جارہے تھے کہ حادثے کا شکار ہو گئے۔
واضح رہے کہ حادثہ بونیر سے کراچی جانے والی مسافر بس اور آئل ٹینکر کے مابین پیش آیا۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کا تعلق بونیر، شانگلہ، تخت بھائی، پشاور اور مردان سے ہے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ لاشوں اور زخمیوں کو بس کی باڈی کاٹ کر گاڑی سے نکالا گیا۔ بونیر سے کراچی جانے والی مسافر بس نمبر 3861- PA کوہاٹ انڈس ہائی وے پر لاچی کے قریب خطرناک موڑ کاٹتے ہوئے سامنے سے آنے والے خام تیل سے بھرے آئل ٹینکر نمبر 170- PLZ سے ٹکرا گئی اور دونوں گاڑیاں سڑک کے کنارے کھڈے میں الٹ گئیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں مسماۃ کلثوم بی بی (شانگلہ)، وجاہت بی بی زوجہ ذاکر خان (تخت بھائی)، ذوالقعدہ زوجہ ایوب (بونیر)، صباح نور دختر ذاکر (تخت بھائی)، شیرین زمان ولد بخت افسر (بونیر)، دلا رام ولد شمشیر (بونیر)، اسامہ (پشاور)، نعمان حبیب ولد حبیب الرحمان (مردان)، صاحب زادہ ولد نظیر (بونیر)، جان محمد ولد ممریز (ساکن غریب نواز کالونی کراچی)، بخت شیر ولد صفت گل (بونیر)، گل حکیم ولد گلاب شاہ (شانگلہ)، فرمان علی ولد معروف شاہ (بونیر) اور دیگر شامل ہیں۔ جبکہ ستائیس زخمیوں میں مسماۃ امین، مسماۃ نازیہ بی بی، سمیع اللہ، ذاکراللہ، عابد، عبدالمعز، امانت خان، سید حذیفہ شاہ، خائستہ رحمان، اعجاز اللہ، ابراہیم، محمد خان، نصیب عمر، مقصود علی، صاحب روسید، حنیف شاہ، معاذ خان، افتخار، سیف الاسلام، نذیر خان، ذاکر، حبیب الرحمان، ولی شاہ، عمیر اور کشمالی خان ہیں اور ان کا تعلق بھی بونیر، شانگلہ اور مردان سے ہے۔ حادثے کی اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس اور ریسکیو 1122 کی ٹیمیں فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئی تھیں اور بس کی باڈی کو کاٹ کر لاشوں اور زخمیوں کو کوہاٹ کے مختلف اسپتالوں میں پہنچایا گیا۔ بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جنہیں ابتدائی طبی امداد کے بعد پشاور منتقل کر دیا گیا ہے۔ ادھر حادثے کا مقدمہ تھانہ لاچی میں درج کرتے ہوئے پولیس نے مزید تفتیش شروع کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق جاں بحق ہونے والے افراد میں زیادہ کا تعلق بونیر کے علاقے سے ہے، جبکہ مسافر بس کو ڈرائیور صابر عرف پہلوان چلا رہا تھا۔ متاثرہ مسافروں کے اہلخانہ اور لواحقین نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ جاں بحق افراد اور زخمیوں کو معاوضے کی ادائیگی کی جائے، جبکہ اس حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی جائے جو خیبرپختون میں کھٹارا بسوں کی نشاندہی کر کے، لانگ روٹ پر سفر کرنے کا ان کا پرمٹ منسوخ کرے۔ جبکہ بس مالکان کو پابند کیا جائے کہ وہ کمپنی سے آئی ہو ئی بسوں کی چھتوں پر جنگلے بنا کر سواریاں بٹھانے سے گریز کریں۔
محکمہ ٹرانسپورٹ کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بس مالکان کراچی جانے والے غریب مزدوروں کو کم کرائے کا لالچ دے کر چھتوں پر بٹھا دیتے ہیں۔ ایئرکنڈیشن بسوں میں پشاور سے کراچی کا کرایہ پانچ ہزار سے چار ہزار کے قریب ہے اور ان بسوں میں مخصوص تعداد میں سواریاں بٹھائی جاتی ہیں۔ جبکہ راستے میں ان کے مختلف ٹرمینل بھی پڑتے ہیں، جہاں پر پشاور سے فیصل آباد، فیصل آباد سے بہاولپور، بہاولپور سے سکھر اور سکھر سے کراچی تک ڈرائیورز کو تبدیل کیا جاتا رہتا ہے، تاکہ ڈرائیورز آرام سے ڈرائیونگ کر سکیں۔ تاہم کھٹارا بسوں کے ڈرائیورز پشاور سے کراچی اور کراچی سے پشاور تک مسلسل ڈرائیونگ کرتے ہیں، جس کی وجہ سے آئے روز انڈس ہائی وے پر حادثات ہو رہے ہیں۔ پھر محکمہ ٹرانسپورٹ کے کرپٹ اہلکار رشوت لے کر ان کھٹارا بسوں کو روٹ پرمٹ جاری کر دیتے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ جن کھٹارا بسوں کے خلاف شہباز شریف حکومت نے کارروائی کی تھی، وہ بسیں خیبرپختون منتقل کر دی گئی ہیں۔ ان کھٹارا بسوں کو لانگ روٹ کے لئے بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ ان بسوں کی ایکس پائری مکمل ہو چکی ہے اور یہ چلانے کے قابل نہیں۔ لیکن خیبرپختون کے محکمہ ٹرانسپورٹ کے اہلکار ان کھٹارا گاڑیوں کو پے در پے پرمٹ جاری کر رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال برطانیہ کی مشہور کمپنی فورڈ کی وہ ویگنیں ہیں، 1980ء کے بعد کمپنی نے جن کی مزید پروڈکشن بند کر دی ہے۔ تاہم پنجاب میں ان کے خلاف کریک ڈائون کے بعد گزشتہ پانچ برسوں سے یہ گاڑیاں خیبرپختون میں اسکولوں اور مسافروں کیلئے استعمال ہو رہی ہیں۔ ٭

Comments (0)
Add Comment