خیراتی فنڈز کی منتقلی میں مشکلات سے نئی مافیا کا جنم

عمران خان
عیدالاضحی اور عیدالفطر سے پہلے رمضان المبارک کے دوران خلیجی و یورپی ممالک سمیت دنیا کے دیگر ملکوں میں مقیم پاکستانیوں اور مسلم کمیونٹی سے فنڈز جمع کرنے والے فلاحی اداروں کو رقوم پاکستان بھجوانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر بالخصوص کراچی میں ایک ایسی مافیا سرگرم ہوگئی ہے، جو اس قیمتی زر مبادلہ کو بیرون ملک روک کر حوالہ اور ہنڈی کے کاروبار میں استعمال کر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک سالانہ کروڑوں ڈالرز کے قیمتی زر مبادلہ سے محروم ہو رہا ہے۔ اس نیٹ ورک سے پاکستان کے بعض صنعت کار، تاجر اور سرکاری افسران بھی ملوث ہیں۔
’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق ایف آئی اے نے عید قرباں اور رمضان المباک کے دوران اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کرنے والے نیٹ ورک کے خلاف کارروائیاں شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ اس نیٹ ورک میں کئی ایسی معروف اور غیر معروف این جی اوز اور بعض نام نہاد مذہبی تنظیمیں اور ادارے بھی ہیں، جن کے رابطے صنعتکار اور تاجروں کے علاوہ سرکاری افسران بھی ہیں۔ ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے ذرائع کے بقول منی لانڈرنگ کا طریقہ وادات ہر برس رمضان میں اور عیدالاضحیٰ سے قبل عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ عید سے قبل سینکڑوں معروف اور غیر معروف این جی اوز کے نمائندے اور مذہبی تنظیموں کے رہنما سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، خلیجی ممالک، امریکہ و یورپی ممالک جاتے ہیں، جہاں ڈالرز، پائونڈ اور یورو سمیت غیر ملکی کرنسی کی صورت میں جمع ہونے والا بھاری فنڈ، قربانی کی رقوم اور چندہ ہنڈی اور حوالے میں ملوث نیٹ ورک کے کہنے پر پاکستان بھجوانے کے بجائے وہیں روک کر اس نیٹ ورک سے جڑے ان لوگوں کو دے دیا جاتا ہے، جنہیں پاکستان میں موجود افراد نے ادائیگیاں کرنی ہوتی ہیں۔ جبکہ واپس آنے پر مذکورہ این جی اوز کو پاکستان میں پاکستانی کرنسی ادا کر دی جاتی ہے اور اس پر منافع بھی دیا جاتا ہے۔ حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا یہ نیٹ ورک اس لئے پنپ رہا ہے کہ پاکستان سے جانے والے فلاحی و مذہبی تنظیموں کے نمائندے جو فنڈزجمع کرتے ہیں، انہیں پاکستان لے کر آنے میں غیر ضروری مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذرائع کے بقول کسی بھی پاکستانی کیلئے امریکہ اور یورپی ممالک سمیت دیگر ملکوں سے خیراتی رقم پاکستان بھجوانا دیگر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں مشکل کر دیا گیا ہے اور ان سے زیادہ سوال و جواب اور پوچھ تاچھ کی جاتی ہے۔ اس پیچیدہ طریقہ کار سے بچنے کیلئے فلاحی تنظیموں کے بیشتر نمائندوں نے بیرون ملک جمع ہونے والی چندہ اور خیرات کی رقم انہی ممالک میں موجود حوالہ ہنڈی کے نیٹ ورک کے استعمال میں لانی شروع کر دی ہے۔ یہ نیٹ ورک ان افراد کی مجبوریوں سے خوب فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس نیٹ ورک کے تحت ایسے صنعتکار اور تاجر جنہوں نے بیرون ملک سے کروڑوں روپے کا سامان منگوانے کا آرڈر دیا ہوتا ہے اور منگوائے گئے سامان کی ادائیگیاں بینکنگ سسٹم سے نہیں کرتے، وہ انتظار کرتے ہیں کہ جب این جی اوز کے نمائندے بیرون ملک جاکر مذہبی پروگراموں اور مساجد میں پاکستانی اور مسلم کمیونٹی سے صدقات، خیرات اور فطرہ زکوٰۃ کی رقم چندے کی صورت میں جمع کریں گے تو وہی کرنسی بیرون ملک ادا کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ہزاروں پاکستانی طلبہ جو بیرون ملک اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں، ان کی فیسیں بھی اسی نیٹ ورک کے ذریعے ادا کی جا رہی ہیں۔ ان طلبہ کے والدین جو زیادہ تر سرکاری افسران ہوتے ہیں، بینکوں سے ڈالرز میں بھاری فیسیں اس لئے نہیں بھجواتے کہ ان کا ریکارڈ ایف بی آر کے ہاتھ نہ لگ جائے، اور انہیں اضافی ٹیکس اور ذرائع آمدنی کی تفصیلات نہ دینی پڑجائیں۔ ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے۔ مذکورہ نیٹ ورک میں ملک کی کئی معروف این جی اوز کے نمائندوں کے علاوہ کئی غیر معروف ایسی تنظیموں کے نمائندے بھی شامل ہیں جن کا کام پاکستان میں اتنا نظر نہیں آتا۔ تاہم بیرون ممالک ان تنظیموں نے اپنی ’’کارکردگی‘‘ ظاہر کر کے مضبوط تاثر قائم کر رکھا ہے۔ انہیں بیرون ملک موجود ہنڈی اور حوالہ کے نیٹ ورک کی معاونت بھی حاصل ہے۔ جبکہ غیر ملکی فنڈز حاصل کرکے انہیں چھپانے والی نام نہاد فلاحی تنظیمیں بھی اسی دھندے میں ملوث ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی اور ملک کے دیگر علاقوں میں کام کرنے والے معروف اور بڑے منی چینجرز نے بھی این جی اوز سے رابطے کر کے اپنے آرڈر بک کرانے شروع کر دیئے ہیں۔ اسی طرح سے کئی این جی اوز کے بینک اکائونٹس بھی بھاری غیر ملکی رقوم کی پاکستان میں ترسیل کیلئے استعمال کئے جار ہے ہیں۔ جس کے عوض ان این جی اوز کو کمیشن ادا کیا جاتا ہے۔ رمضان میں ایم اے جناح روڈ کے اطراف میں کام کرنے والے کئی منی چینجرز سیزن میں کام کرنے کیلئے اولڈ سٹی ایریا میں میٹنگز کرتے ہیں، جس میں این جی اوز کے نمائندے اور منی چینجرز کے علاوہ بعض صنعتکار اور تاجر موجود ہوتے ہیں۔ ان ملاقاتوں میں این جی اوز کے نمائندوں کو اہداف دیئئے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے بیرون ملک کس کو کتنی رقم ادا کرنی ہے اور اس کے بعد وطن واپس آنے کے بعد انہیں کس شرح منافع پر پاکستانی کرنسی میں ادائیگی کی جائے گی۔ اس پوری میٹنگ میں ہونے والی گفتگو صرف اسی نکتے پر ہوتی ہے کہ این جی اوز اور تنظیموں کے نمائندوں کو کس ملک میں جانا ہے اور انہیں کتنا فنڈ ملنے کی امید ہے۔ اسی حساب سے این جی اوز کو بیرون ملک ادائیگیوں کیلئے ٹاسک دیا جاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حوالے اور ہنڈی کے اس نیٹ ورک کے ذریعے جہاں پاکستان کو قیمتی زر مبادلہ سے محروم کیا جا رہا ہے، وہیں این جی اوز کا نیٹ ورک بھی جمع کردہ چندے کو چھپا کر اسے فلاحی کاموں میں لگانے کے بجائے ذاتی استعمال میں لا رہا ہے۔ یہ ملکی اور بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اس غیر قانونی دھندے کی سرگرمیاں گزشتہ کئی برسوں سے زور و شور سے جاری ہیں۔ تاہم وفاقی حکومت، ایف بی آر اور ایف آئی اے سمیت دیگر ادارے خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہے ہیں۔ تاہم رواں برس اسٹیٹ بینک کے حکام کی جانب سے خصوصی دلچسپی لینے کے بعد ایف آئی اے اسٹیٹ بینک سرکل کے افسران نے اس پر تحقیقا ت شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ برس منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی سمیت سندھ بھر میں 36 ہزار این جی اوز رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں کراچی کی 12 ہزار اور اندرون سندھ کی 24 ہزار این جی اوز شامل ہیں۔ اس ضمن میں ’’امت‘‘ کو اسٹیٹ بینک سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر علی ابڑو نے بتایا کہ ’’حوالہ، ہنڈی اور منی لانڈرنگ کا یہ سلسلہ ہر سال عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر سے قبل زور پکڑ لیتا ہے۔ رمضان کے دوران اسٹیٹ بینک حکام کی معاونت سے ان گروپوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں‘‘۔
پاکستان کی سب سے بڑی فلاحی تنظیموں میں سے ایک سیلانی ویلفیئر فائونڈیشن کے سربراہ عامر مدنی نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بیرون ملک سے فنڈز جمع کرنے والی تنظیموں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ جبکہ انہوں نے اس کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کیا ہے کہ بیرون ملک مقیم جو پاکستانی اپنے ملک میں قربانی کرنا چاہتے ہیں یا رقم خیرات کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے رشتے داروں کو بینکنگ چینل کے ذریعے رقم بھجوادیتے ہیں اور پھر یہ رقم انہیں موصول ہوجاتی ہے۔ جس کو استعمال میں لاکر رقم بھیجنے والوں کے مقاصد کو پورا کر دیا جاتا ہے۔ یہ ایک سادہ سا فارمولا ہے جو پیچیدگیوں سے بچنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترجمان قمر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بیرون ملک سے چندہ اور خیراتی رقم جمع کرنے والے فلاحی ادارے جس ملک سے بھی رقم لائیں گے، انہیں وہاں کے قوانین اور مراحل کو لازمی پورا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ موجودہ صورت حال میں پاکستانی شہریوں کو دیگر ملکوں کے شہریوں کے مقابلے میں زیادہ پوچھ تاچھ کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ ان ملکوں کا اندرونی اور قانونی معاملہ ہے، جس پر اسٹیٹ بینک کچھ نہیں کرسکتا۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’فنڈز جمع کرنے والے افراد بیرون ملک ادائیگیاں کروانے والے حوالہ، ہنڈی کے نیٹ ورک کا حصہ ہیں اور ان کی اس طرح کی سرگرمیوں سے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ اس ضمن میں کوئی تحریری شکایت تو موصول نہیں ہوئی، تاہم متعلقہ ادارے اس پر کام کر رہے ہیں‘‘۔

Comments (0)
Add Comment