وزیر خانم کو راحت افزا کے نکاح کی فکر لاحق ہوگئی

قسط نمبر: 196
اردو ادب میں اچھے نادلوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر ایسے ناول بہت کمیاب ہیں، جو کسی ایک یا زیادہ حقیقی واقعات کو بنیاد بنا کر لکھے گئے ہوں۔ انگریزی ادب میں FACT اور Fiction کو ملا کر FACTION کی نئی طرز ایجاد کی گئی۔ جس میں حقیقت اور فسانہ اس طرح گھلے ملے ہوتے ہیں، جیسے پانی سے بھرے گلاس میں برف کی ڈلی۔ تاہم اردو ادب میں اب ایک ایسا ناول ضرور موجود ہے، جو ایسے معیارات پر پورا اترتا ہے اور دنیا بھر کے قارئین کے لئے پیش کیا جا سکتا ہے۔ ’’کئی چاند تھے سر آسمان‘‘ شمس الرحمان فاروقی کے بے مثال قلم کا شاہکار ہے۔ ایک سچی کہانی۔ جس کے گرد فسانے کا تانا بانا بُنا گیا ہے۔ یہ اس زوال یافتہ معاشرے کی کہانی ہے جب بہادر شاہ ظفر زندہ تھے۔ اور تیموری خاندان کی بادشاہت آخری سانس لے رہی تھی۔ اس دور کی دلی اور گردو نواح کے واقعات۔ سازشیں۔ مجلسیں۔ زبان و ادب۔ عورتوں کی بولیاں ٹھولیاں اور طرز معاشرت سب آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے۔ قارئین کے ادبی ذوق کی آبیاری کے لئے ’’امت‘‘ اس ناول کے اہم حصے پیش کر رہا ہے۔ یہ ناول ہندوستان اور پاکستان میں بیک وقت شائع ہوا تھا۔ مصنف شمس الرحمان فاروقی ہندوستان میں رہتے ہیں۔ وہ ایک بڑے نقاد، شاعر اور بے مثال ناول نگار کی شہرت رکھتے ہیں۔ (ادارہ)
وزیر خانم کو صاف دکھائی دے رہا تھا کہ یہاں اب اس کا رہنا بہت دیر تک نہ ہوگا۔ وہ یہ بھی جان رہی تھی کہ راحت افزا کی جدائی بھی اب زیادہ دیر ٹل نہیں سکتی۔ شریف گھرانوں کی بیٹیوں کے حساب سے تو اس کی شادی کی عمر نکل چکی تھی، لونڈی باندی، اصیل اور خواص کے اعتبار سے بھی اب اس کی عمر قریب قریب جا چکی تھی اور کچھ مدت بعد تو اسے گھر میں ڈال لینے والا بھی کوئی نہ ملتا۔ حبیب النسا نے وزیر کی محبت سے مغلوب ہو کر اب تک بیٹی کی شادی کے لئے زور نہ دیا تھا، لیکن اب جب وزیر خانم خود بے ٹھکانے ہوئی جاتی تھی، راحت افزا کا انتظام اشد ضروری ہو گیا تھا۔ راحت افزا کی صورت، شکل اور سگھڑاپے کے باعث اس کے لئے اچھا بر ملنا غیر ممکن نہ تھا، شرط صرف حبیب النسا اور وزیر خانم کی رضا مندی اور نوبیاہتا جوڑے کے لئے رہنے سہنے کے گھر اور اثاث البیت کے مناسب انتظام کی تھی۔ وزیر نے اپنی فراست سے سمجھ لیا تھا کہ حبیب النسا از خود اب بھی کچھ نہ کہے گی، لہٰذا اس نے مناسب موقع دیکھ کر حبیبہ سے کہا کہ عدت کے دن گزارتے ہی وہ راحت افزا کے لئے سامان شادی کی فکر شروع کر دے گی اور مناسب لڑکا ڈھونڈے میں بھی اس کی مدد کرے گی۔
’’ میرا بس چلتا تو میں راحت افزا کو کبھی اپنے سے جدا نہ کرتی اور اس کے میاں کو گھر جوائی بنا کر رکھ لیتی۔ لیکن…‘‘۔
’’خانم صاحب‘‘، حبیبہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ ’’راحت افزا کے لئے آپ پہلے ہی دن سے باپ، ماں، فرشتہ رحمت، سب کچھ تھیں۔ کاش کے آپ کی تقدیر یوں ٹیڑھے قلم سے نہ لکھی گئی ہوتی۔ خیر میں تو آپ کے قدموں سے لگی ہی رہوں گی… لیکن… ‘‘۔ اب اس کے آنسو پھوٹ بہے۔ ’’راحت افزا کی جدائی کیسے برداشت ہوگی؟‘‘۔
’’ہمت سے کام لو حبیبہ‘‘۔ وزیر کے لہجے میں استقامت آمیز غم آلودگی تھی۔ ’’اگر حالات صحیح ڈھب کے ہوتے تو راحت افزا کبھی کی بیاہ گئی ہوتی۔ اب اور دیر کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ اور یہاں کا رنگ تم دیکھ ہی رہی ہو…‘‘۔
’’تیرہ صدی ہے خانم صاحب۔ جو نہ ہو جائے تھوڑا ہے۔ لیکن…‘‘۔
’’ ابھی تو مجھ دکھیاری کے خانہ قید کے ایام ہیں، پتہ نہیں ان کے گزر جانے پر یہ میرزا بیگمائیں کیا کیا فیل مچائیں‘‘۔
’’مجھے تو ان کے لچھن نہ ان کے سبھائو کچھ بھلے لگتے ہیں۔ اللہ جانے ہماے آغا صاحب کو انہیں کی نظر کھا گئی…‘‘۔
’’توبہ کرو حبیبہ، توبہ کرو۔ کوئی اپنے وارث کو بری نظر سے کیوں دیکھے گا۔ ان دونوں کا تو سارے جہان میں کوئی اور ہاتھ تھامنے والا نہ تھا‘‘۔
’’سہی۔ لیکن اگر آغا صاحب سے ان کو لگائو تھا تو آپ سے لاگ کیوں ہو؟ آپ آغا صاحب سے الگ تو تھیں نہیں‘‘۔
’’تھی بھی، اور نہیں بھی تھی‘‘۔ وزیر خانم نے ٹھنڈی سانس کھینچی۔ ’’ایک تو میں غیر کفو، پھر یہ کہ بالکل باہر والی اور… اور بدنام الگ‘‘۔
’’یہ بدنامی اور نیک نامی آپ کیا لے بیٹھیں۔ نواب شمس الدین شہید کے ایک ناخن پا پر ان جیسوں کو قربان کروں۔ کوئی آپ کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھے تو اس کی ہی پھوٹیں۔ انسان کی نیک نامی اس کی انسانیت سے ہوتی ہے۔ بڑی آئی ہیں گنوں نہ گوتھوں میں دولہے کی خالہ‘‘۔
’’چھوڑو تم یہ ایران توران کی کہانیاں۔ اول بات کی اول فکر ضروری ہے۔ راحت افزا کے لئے کوئی لڑکا تمہاری نظر میں ہے؟‘‘۔
حبیب النسا سوچ میں پڑ گئی۔ بڑی دیر تک سر جھکائے رہنے کے بعد وہ دبے پائوں اٹھی، جس حجرے میں وہ دونوں بیٹھی تھیں، اس کا دروازہ تیغا کیا، پھر واپس آ کر وزیر کے زانو سے زانو قریب ملا کر زمین پر بیٹھ گئی۔
’’کیوں کیا ہوا حبیبہ؟‘‘۔ وزیر نے سرگوشی کے لہجے میں کہا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔ حبیب النسا نے اسی لہجے میں جواب دیا۔ ’’مجھے خیال سا ہوا کہ آپ کی پھوپھیا ساس جی کہیں پاس ہی میں کان لگائے بیٹھی ہیں‘‘۔
’’توبہ، تمہارے بھی وہم کیا ہیں۔ ہندنیوں کے تو ہم ہیں کہ وہ ہر گھنے پیڑ پر برم راکچھس کی چھایا دیکھتی ہیں۔ خیر کہو تو سہی، کوئی بات دھیان میں آئی ہے کیا؟‘‘۔
’’جی وہ جو شاہ نور خان ہیں نہ، ہمارے مرحوم آغا صاحب کے خریدے ہوئے جانوروں کو سونپور سے لائے تھے…‘‘۔
’’تو پھر؟‘‘
’’جی وہ میرے مرحوم کے گھر کے ہیں۔ میرٹھ کے۔ یہاں کے نہیں ہیں‘‘۔
’’یعنی اعتبار کے لوگ ہیں۔ خوب، تو ان کے یہاں کوئی رشتہ ہے؟‘‘۔
’’ایک بار ان کی خالہ جی آئی تھیں۔ اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ گئی تھیں۔ لیکن اس وقت سماں اور تھا۔ میں نے بھی اشارے اشارے میں انکار کر دیا تھا‘‘۔
’’دوبارہ بات شروع کی جائے۔ یہی تمہاری مرضی ہے؟ اور راحت افزا؟‘‘۔
’’اللی میری توبہ، راحت افزا کا کیا مذکور ہے، جو آپ کہیں گی، جو میں چاہوں گی وہی ہوگا‘‘۔
’’نہ، نہ اس کی مرضی لینا ضرور ہے‘‘۔
حبیب النساء کے چہرے پر ذرا سا انقباض دوڑا، لیکن اس نے بات ٹال کر کہا ’’ادھر چند دن ہوئے شاہ نور خان کی ایک رشتے کی بہن مجھے عمدہ خانم صاحب کے یہاں ملی تھیں۔ کہنے لگیں، ہماری خالہ جی ہمارے بھائی کے لئے رشتے دیکھ رہی ہیں۔ مجھے لگا کسی مطلب ہی سے انہوں نے ایسا کہا ہو گا‘‘۔
’’ہاں، بات تو دل کو لگتی ہوئی ہے۔ تو تم نے کچھ پوچھ گچھ کی؟‘‘۔
’’نہیں، ابھی کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ آپ سے پوچھے بغیر کچھ کہتی یا کرتی، میری کیا مجال‘‘۔
’’خیر اب دیر نہ کرو۔ مگر چھان بین کر لینا۔ میں بھی منجھلی باجی سے بات کروں گی۔ صحیح پتہ لگانے میں ان سے امداد ملے گی‘‘۔
کچھ دنوں بعد عمدہ خانم اور دوسرے ذرائع سے پورا پتہ لگ گیا کہ لڑکے والے شریف پٹھان ہیں۔ گھر میں باپ ماں کوئی نہیں۔ ایک بیوہ بوڑھی بہن ہے، سگی نہیں بلکہ رشتے کی۔ وہ اور اس کا نابینا بیٹا شاہ نور خان کی کفالت میں ہیں۔ خود شاہ نور خان ایک بیوی کو طلاق دے چکے ہیں۔ مطلقہ بیوی سے ایک لڑکی ہے جس کی عمر اب کوئی بارہ پندرہ سال ہوگی۔ وہ اپنے باپ ہی کے یہاں رہتی ہے۔ شاہ نور خان یہ کوئی چالیس کے پیٹے میں ہوں گے۔ حضور نواب صاحب بہادر کے فیل خانے میں بیس پچیس برس سے نوکر ہیں۔ یافت اچھی ہے، دو وقت کی روٹی آرام سے چل جاتی ہے۔ پہلی بیوی کو طلاق دینے کی وجہ بیوی کی بدمزاجی اور جھگڑالو پن بتایا گیا۔ کہا گیا کہ اسے اپنی بیوہ بوڑھی نند اور اس کا بے بصارت بیٹا ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ عمومی حیثیت سے تو رشتہ ٹھیک معلوم ہوتا تھا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ دولہے کا گھرانا کچھ لمبا چوڑا نہ تھا اور ساس سسر کے ساتھ نباہ کرنے کا کوئی معاملہ تھا ہی نہیں۔ رہی بیوہ بہن اور اس کا بیٹا تو وہ نادار رشتہ داروں کی طرح دولہے کے یہاں مقیم تھے۔ ان کے ساتھ کسی قسم کی آویزش یا تنافر ذات کا امکان نہ تھا۔
’’لڑکے کا اصل سبھائو کیسا ہے، لوگ کیسے ہیں، یہ تو کچھ دن ساتھ رہنے برتنے سے ہی معلوم ہوگا‘‘۔ عمدہ خانم نے وزیر سے کہا۔ ’’آدمی جانے بسے سونا جانے کسے۔ لیکن بظاہر تو نسبت ٹھیک ہی لگتی ہے۔ باقی اللہ مالک ہے‘‘۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment