راحت افزا کی شادی وزیرخاتم کے لئے چیلنج بن گئی

شادی کی بات عیب کی طرح ہوتی ہے۔ کتنا ہی چھپائو چھپتی نہیں، اور خاص کر ان لوگوں کو ضرور اس کا پتہ لگ جاتا ہے، یا پتہ نہیں تو سن گن ہی لگ جاتی ہے جن کی طرف سے مخالفت یا اڑچن کا اندیشہ ہو۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ شاہ نور خان کے گھر والوں تک حبیبہ کی طرف سے اشارہ پہنچتے ہی وزیر کی نند نور فاطمہ اور پھوپھیا ساس امیر النسا بیگم کو خبر لگ گئی۔ پھوپھیا ساس نے اسی دن وزیر کو اپنے حجرے میں بلوا بھیجا اور کسی تمہید کے بغیر کہنا شروع کیا ’’دیکھئے چھوٹی بیگم، ابھی آپ کی عدت پوری نہیں ہوئی ہے۔ آپ کو شادی منگنی کی بات کرنا زیب نہیں دیتا‘‘۔
وزیر خانم کا چہرہ تمتما اٹھا۔ کانوں کی لویں سرخ ہو گئیں۔ اس نے ذرا تیز لہجے میں کہا ’’میں سمجھی نہیں کہ کس نسبت یا بیاہ شادی کی بابت آپ کو یہ اوہام دامنگیر ہیں۔ آپ…‘‘۔
’’یہ راحت افزا… ‘‘۔ امیر النسا بیگم نے وزیر کی بات کاٹ کر کہا۔
وزیر نے بھی قطع کلام کیا اور بولی ’’آپ کو اس بات کرنا سہاوتا نہیں پھوپھی جان۔ بے باپ اور بے سہارا بچی کے دو بول پڑھوا کر اسے گھر گھاٹ لگا دینا تو آپ کے یہاں بھی ثواب کا کام ہو گا‘‘۔
’’عذاب ثواب کی بات ملاں مجتہد جانیں ہوں گے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ تمہیں سوچو۔ تمہیں عدت اور رنڈاپا کس طرح گزارنا ہے؟‘‘۔
’’میں کیا خدا نخواستہ اپنے نکاح بیاہ کا سلسلہ کر رہی ہوں؟ یہ آپ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟‘‘۔ فرط برہمی سے وزیر کی آواز بھرانے لگی تھی۔
’’اللہ جھوٹ نہ بلوائے۔ تم تو ان کوچوں میں خوب کھائی کھیلی ہو‘‘۔ نور فاطمہ نے زہرخند کے ساتھ کہا۔ اپنے مرحوم بھائی کی اکلوتی اور وہ بھی چھوٹی بہن ہونے کی وجہ سے اس کی زبان بہت کھلی ہوئی تھی اور وزیر کا گھر میں آنا اسے سب سے زیادہ شاق بھی گزرا تھا۔
وزیر خانم نے یہ کہتے ہوئے اٹھ کر دروازے کا رخ کیا کہ ’’آپ لوگوں کو بات کرنے کی تمیز نہیں ہے…‘‘۔
لیکن پھوپھیا ساس نے اپنی آواز کچھ بلند کر کے کہا ’’ہم گھر میں بیٹھنے والیاں تم لوگوں جیسی شائستگی کہاں سے لاویں، لیکن چھوٹی بیگم، اتنا سمجھ لو کہ اس دروازے پر کسی سئیس فیلوان کی بارات کبھی آئی ہے اور نہ اب ہی آوے گی‘‘۔
’’یہ دروازہ میرا نہیں ہے کیا؟‘‘۔ وزیر پلٹ کر بولی۔
’’اے سبحان اللہ۔ کبھی کنویں میں جھانک کر منہ دیکھا ہوتا۔ میرے ماں جائے کی اولاد، کھرا سید نجیب الطرفین، تم نے کوئی برکی ڈال دی ہو گی کہ چندے ہوش کھو بیٹھا۔ میرا بھتیجا لے آیا تو اب ستونتی ہوکر بیٹی ہو، ورنہ تم کہاں اور یہ چوکھٹ کہاں‘‘
’’جی بہت خوب۔ لیکن لائی تو میں نکاح کر کے گئی تھی، اور آپ کے لاڈلے بھتیجے کا بیٹا میرے ہی پیٹ کا پیدا ہے۔ وہ نہ ہو تو آپ کی ساری نجیب الطرفینی دھری رہ جائے۔ آپ کے باپ دادا کا نام چلے گا تو اسی سے چلے گا‘‘۔
’’اس کو ہم الگ سے سلٹ لیں گے۔ تم پہلے اپنی عدت پوری کرو چھوٹی بیگم۔ اور حبیب النسا کو تو ہم کھڑے کھڑے نکال باہر کریں گے۔ اس سے کہہ دو کہ اس خیال میں نہ رہے کہ اس کی بیٹی کا ڈولا اس گھر سے اٹھے گا‘‘۔
’’حبیب النسا اور اس کی بیٹی کے باب میں بولنے کی زحمت آپ نہ کریں امیر النسا بیگم۔ دہلی اور رامپور دونوں جگہ میرے گھر ہیں۔ آپ کے ماں جائے کا مرحوم بیٹا مجھے ہزار منتوں سے لایا تھا، ورنہ میری جوتی بھی یہاں نہ آتی‘‘۔ وزیر نے غصے سے کانپتے ہوئے کہا۔ ’’اور آپ جیسیوں سے تو میں چوکی پر لوٹا بھی نہ رکھواتی۔ غضب خدا کا جس کا آشیاں خود ہی شکستہ شاخ پر وہ دوسرے کو بے گھر کرنے کی دھمکی دے۔ راحت افزا کی بارات آئے گی اور یہیں آئے گی‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ڈوپٹہ کمر پر کس کے باندھا۔ شربتی آنکھیں گہری سیاہ، چہرے پر وہی تیج جس نے کبھی نواب شمس الدین احمد کی جراتیں پست کر دی تھیں۔ وہ کمرے کے باہر چلی گئی، لیکن دونوں عورتوں کو وہ حجرہ بہت دیر تک اس کی موجودگی سے لبریز محسوس ہوتا رہا۔
کمرے سے باہر آتے ہی وزیر خانم نے پرچہ بھیج کر منجھلی کو بلوایا اور اسے پوری بات بتائی۔ ’’ابھی تو راحت افزا کی نسبت ٹھہری نہیں ہے، لیکن اس جگہ نہیں تو اور کہیں نہ کہیں ٹھہر ہی جائے گی۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ یہ دونوں بیوائیں اپنے دل کی کڑواہٹیں اس بیچاری پر انڈیلیں، اس کی تذلیل کریں اور مجھے بھی خوار کریں‘‘۔ وزیر نے اپنے عام، ٹھنڈے، متین لہجے کے برخلاف انتہائی شدت اور جوش سے کہا۔ ’’شادی تو میں یہیں سے کروں گی، آخر یہ گھر میرا بھی ہے۔ لیکن پھر میں یہاں رہوں گی نہیں‘‘۔
’’وہ تو کوئی بات نہیں۔ میرا گھر موجود ہے۔ عدت کے بعد تم جب چاہو اٹھ آئو‘‘۔ منجھلی نے کہا۔
’’نہیں منجھلی باجی، میں دلی میں رہوں گی۔ میرا گھر تو وہاں ہے ہی، اجڑا پچڑا سہی۔ فقیر کو کمبل ہی دوشالہ ہے۔ لیکن یہ سب بعد کی باتیں ہیں۔ اول بات یہ ہے کہ مجھے تمہاری، تمہارے نواب کی، اور بندگان عالی کی پشت پناہی درکار ہے‘‘۔
’’میں اور میرے نواب صاحب تو بے شک تمہارے پشتیبان ہیں، جیسے کہ پہلے تھے، اعلیٰ حضرت کا ذمہ میں نہیں لے سکتی، لیکن کوشش میں کمی نہ ہو گی۔ میں آج ہی اپنے نواب صاحب سے تذکرہ کروں گی‘‘۔ عمدہ خانم نے جواب دیا۔
کچھ دن تک کوئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی، لیکن راحت افزا کے لئے شاہ نور خان کے گھر والوں سے بات تقریباً پکی ہو گئی۔ تاریخ، مہر، براتیوں کی تعداد اور دیگر تفصیلات طے ہونا باقی تھیں۔ امیر النسا بیگم اور نور فاطمہ نے وزیر خانم سے بالکل کنارہ کر لیا تھا، حتیٰ کہ اپنے کھانے پینے کے برتن باسن بھی الگ کر لئے تھے۔ چھوٹا سا گھر، ایک کا دوسرے کے پائوں تلے آنا لازمی تھا، لیکن وزیر نے اپنے برتائو کو ہمیشہ سہج اور شیریں رکھا، ہر چند کہ امیر النسا بیگم یہ جتانے کا کوئی موقع نہ چھوڑتی تھیں کہ وزیر کا وجود ان کے لئے مقبول نہیں، اور راحت افزا کو تو اگر سانپ ڈس لیتا یا بجلی اسے جلا کر خاک کر دیتی تو امیر النسا گھی کے چراغ جلاتیں۔ یہ بات بھی ساس نند نے واضح کر دی تھی کہ راحت افزا کی بارات عرش معلیٰ پر آ کر ٹھہرے یا بازار میں عین چوراہے پر قیام کرے، لیکن ان کے گھر پر اس کا اترنا غیر ممکن تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment