مولانا انور شاہ کشمیریؒ ایک مرتبہ کشمیر جا رہے تھے، بس کے انتظار میں سیالکوٹ کے اڈے پر تشریف فرما تھے، ایسے میں ایک پادری ادھر آیا، اس نے آپؒ سے کہا:
’’آپ کے چہرے کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ آپ مسلمانوں کے بڑے عالم ہیں۔‘‘
آپؒ نے فوراً فرمایا: ’’نہیں! میں طالب علم ہوں۔‘‘
اس نے پوچھا: ’’آپ کو اسلام کے متعلق علم ہے؟‘‘
آپؒ نے جواب دیا: ’’کچھ کچھ۔‘‘
اس نے کہا: ’’اپنے دین کے بارے میں کچھ دلائل دیں۔‘‘
اس کے مطالبے پر آپؒ نے حضور نبی کریمؐ کی نبوت پر چالیس دلائل دئیے، دس تورات اور دس انجیل سے اور دس عقلی دلائل دئیے … وہ پادری آپؒ کی تقریر سن کر سکتے میں آگیا اور آخر اس نے کہا:
’’اگر مجھے اپنے مفادات کا خیال نہ ہوتا تو میں مسلمان ہو جاتا، نیز خود مجھے اپنے مذہب کی بہت سی باتیں آپ سے معلوم ہوئی ہیں۔‘‘
ایک مرتبہ کشمیر کے علماء میں طلاق کے ایک مسئلے میں اختلاف ہو گیا۔ دونوں فریقوں نے حضرت شاہ صاحبؒ کو حَکم (فیصل) بنایا۔ دونوں فریق آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے دلائل آپ کو سنائے۔ آپ غور سے سنتے رہے۔ ان میں سے ایک فریق اپنے مؤقف پر فتاویٰ عمادیہ کی ایک عبارت پیش کر رہا تھا۔ شاہ صاحب نے اس بارے میں فرمایا:
’’میں نے دارالعلوم کے کتب خانے میں فتاویٰ عمادیہ کے ایک صحیح قلمی نسخے کا مطالعہ کیا ہے، اس میں یہ عبارت ہرگز نہیں ہے، لہٰذا یا تو ان کا نسخہ غلط ہے یا یہ پھر لوگ مغالطہ دے رہے ہیں۔‘‘
حضرت شاہ صاحب نے مولانا بنوریؒ کو اس مقدمے کا فیصلہ لکھنے کا حکم دیا، انہوں نے فیصلہ لکھنے کے بعد شاہ صاحب کے نام کے نیچے عالم متبحر لکھ دیا، یعنی یہ تعظیمی لفظ لکھ دیا، آپ نے پڑھا تو ناراض ہوئے اور فرمایا:
’’آپ کو صرف محمد انور شاہ لکھنے کی اجازت ہے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭