ابراہیم بن خضر (جو قاضی بغداد کے امینوں میں سے ایک تھے) کہتے ہیں:
ہلاکت اور تباہی کے تمام اسباب میں بھی ایک ذات ایسی ہے، جو اپنی قدرت سے بندے کی حفاظت کرتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
ترجمہ: ’’اور تمہارا پروردگار ہر چیز کا نگران ہے۔‘‘ (سورۃ السباء: 41)
مجھے میرے ایک قابل بھروسہ دوست نے یہ قصہ بیان کیا ہے، اسی کی زبانی ملاحظہ کیجئے!
’’میں خلافت حنبلیہ میں ’’مقام حائر‘‘ کی طرف گیا، میرے ساتھ ایک قافلہ بھی تھا۔ جب ہم ’’بانقیا‘‘ کے گھنے جنگلات میں پہنچے، تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا:
’’میرا دل یہ کہتا ہے کہ میں اس سفر میں کسی درندے کا شکار ہوجاؤں گا اور وہ پورے قافلے میں سے میرے علاوہ کسی پر بھی حملہ نہیں کرے گا۔ اگر بالفرض ایسا ہی ہو تو پھر تم ایک کام کرنا! میری یہ سواری اور یہ سامان گھر پہنچا دینا!‘‘
انسان کو حق تعالیٰ سے ہمیشہ عافیت مانگنی چاہیے۔ اس کے باوجود اگر کبھی ایسی صورت حال پیش آئے، جس میں وہ کسی انسان یا درندے سے مغلوب ہو جائے تو یہ دعا پڑھے:
ترجمہ: ’’کافی ہے میرے لیے خدا، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ میں نے اسی پر بھروسہ کیا اور وہ بڑے عرش کا مالک ہے۔‘‘ (معارف القرآن: 490/4، سورۃ التوبۃ: 129)
میں نے اس سے کہا: ’’تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟ حق تعالیٰ سے پناہ طلب کرو اور اس باطل خیال کو دل سے جھٹک دو!‘‘
ابھی کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ اتنے میں ایک شیر نمودار ہوا، جسے دیکھتے ہی وہ خوف کے مارے اپنی سواری سے نیچے گر گیا، شیر نے اسے ران کی طرف سے دبوچا اور جنگل میں چلا گیا۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ واقعی جو اس نے کہا تھا، اسی طرح ہو گیا۔ ہم لوگوں پر بھی خوف سوار ہوگیا اور ہم بھی بھاگنے پر مجبور ہوگئے، لیکن میں نے اس کی وصیت کے مطابق اس کی سواری اور سامان وغیرہ لیا اور پھر تیزی سے ’’حائر‘‘ پہنچا۔ وہاں کچھ روز قیام کرنے کے بعد واپس بغداد کی راہ لی۔
سفر کی تھکن کی وجہ سے کچھ دن آرام کیا اور اس کے بعد اس کی امانت لے کر اس کے گھر چلا گیا، تاکہ اس کی امانت اس کے اہل خانہ کے حوالے کروں اور انہیں اس کی موت کی خبر دے کر تعزیت کروں۔
میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے وہی دوست باہر آیا، جسے دیکھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے اور میں بت بنا اسے دیکھتے ہی رہ گیا کہ یہ وہی ہے یا مجھے دھوکہ لگ گیا ہے؟ میں ابھی سنبھلنے بھی نہ پایا تھا کہ اس نے مجھے گلے سے لگا لیا اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، میرے آنسو بھی رواں ہو گئے۔
پھر اس نے اپنا واقعہ سنایا:
’’جس وقت شیر نے مجھے پکڑا اور گھنی جھاڑیوں میں لے گیا، اسی وقت میں نے کسی چیز کی آواز سنی، شیر نے اپنی گرفت ڈھیلی کی اور مجھے چھوڑ کر اس آواز کی طرف نکل گیا۔ دیکھا تو وہ ایک خنزیر کی آواز تھی۔ شیر مجھے بھول کر اس میں لگ گیا اور اس پر حملہ کر دیا۔ میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے شیر کو اسے کھاتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ اس سے بالکل فارغ ہوگیا تو وہ میری طرف نہیں آیا، بلکہ جنگل میں دوسری طرف نکل گیا۔
مجھے کچھ سکون ہوا تو میں نے اپنے جسم کا وہ حصہ دیکھا، جہاں سے شیر نے مجھے پکڑا تھا، معمولی زخم آئے تھے، اس لیے میری ہمت بڑھ گئی کہ اب جان بچانے کے لیے کوئی پیش رفت کرنی چاہیے، چنانچہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور جنگل میں راستہ ڈھونڈنے لگا۔ راستے میں کتنے جانور اور انسان مردار پڑے ہوئے تھے، جنہیں میں پھلانگتا ہوا آگے بڑھتا رہا۔
ایک تازہ انسانی لاش پر میرا گزر ہوا، جس کے کچھ حصے کو شیر نے کھایا تھا اور باقی جسم سالم تھا اور اس سے تازہ خون رس رہا تھا، اس کی کمر پر ایک تھیلی بندھی ہوئی تھی، جس کا کچھ حصہ پھٹا ہوا تھا اور اس میں سے دینار باہر نکل رہے تھے، میں نے وہ دینار اکٹھے کیے اور تھیلی کو اس کی کمر سے الگ کیا اور اسے لے کر پھر تیزی سے دوڑ پڑا۔
راستہ مجھے مل گیا۔ وہاں سے میں نے ایک سواری کرائے پر لی اور آپ لوگوں کے پاس آنے کے بجائے جلدی سے بغداد پہنچا، کیونکہ مجھے یہ خوف کھائے جا رہا تھا کہ کہیں تم لوگ مجھ سے بھی پہلے بغداد نہ پہنچ جاؤ اور میرے گھر والوں کو میری موت کی خبر دے دو، جس کی وجہ سے یہاں صف ماتم بچھ جاتی۔
یہاں پہنچ کر میں نے اپنے زخمی حصے کا علاج کروایا اور خدا کا شکر کہ اب بالکل صحت مند ہوں۔ یہ محض رب تعالیٰ کا ہی فضل و کرم ہے کہ اس نے موت کو قریب سے دکھا کر مجھے نئی زندگی کا عطیہ دیا، جسے میں زندگی بھر بھلا نہ سکوں گا۔‘‘
(راحت پانے والے، تصنیف شیخ ابراہیم الحازمی، استاذ کنگ سعود یونیورسٹی، ریاض)
٭٭٭٭٭