سرفروش

مجھے یاد تھا کہ اپنے سابقہ سفر میں دلّی سے فتح آباد کا لگ بھگ ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ طے کرنے میں مجھے چھ گھنٹے سے بھی زیادہ وقت لگا تھا۔ یہاں سے دلّی جانے والی بس پکڑنا بہت آسان تھا۔ سست سے سست گاڑی بھی رات کے ابتدائی پہر میں مجھے دارالحکومت پہنچا دیتی۔ لیکن اس صورت میں مجھے وہاں شب گزاری کے لیے ٹھکانا ڈھونڈنا پڑتا، جو اپنی جگہ ایک پُر خطر مرحلہ ہوتا۔ مجھ جیسے بے سر و ساماں، تنہا مسافر کی ہوٹلوں اور مسافرخانوں میں آمد خوامخواہ توجہ کھینچ سکتی تھی، جس سے میں ہر قیمت پر بچنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اس ملک میں آمد کے بعد سے اپنے اب تک کے تجربات سے میں نے سیکھا تھا کہ میرے لیے رات کا سفرہی موزوں رہتا ہے۔ کیونکہ اس طرح میں نیند کا بہانہ کر کے وقت گزاری کے لیے گپ شپ پر مجبور کرنے والے ہم سفروں کی طرف سے مداخلت سے باآسانی بچ سکتا تھا۔ ویسے بھی سردیوں کی رات میں زیادہ تر مسافر وں کو اونگھنے اور سونے میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے۔
لیکن اسی قصبے میں بغیر کسی خاص مصروفیت کے اتنے گھنٹے گزارنا بھی مجھے مناسب نہیں لگا۔ وجہ وہی تھی کہ میں توجہ کا مرکز بننے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ درحقیقت مالیر کوٹلہ سے بٹھنڈا تک کے بس کے سفر کے دوران خفیہ پولیس کے افسر گرداس کے ہتھے چڑھ کر تقریباً موت کے منہ میں پہنچنے کے ہولناک تجربے نے مجھے جو تلخ سبق سکھایا تھا، میں اسے ہر صورت میں یاد رکھنا چاہتا تھا۔ جبکہ اب تو میرے پاس اپنے پیارے وطن کی سلامتی میں مددگار ایک بیش قیمت امانت موجود تھی۔ لہٰذا میں کسی غفلت کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔
اپنے احتیاطی لائحہ عمل کے تحت فتح آباد میں بس اڈے کے ایک بڑے سے ڈھابے پر کھانا کھانے اور ڈیڑھ دو گھنٹے مزید گزارنے کے بعد میں نے قریبی بازار کا رخ کیا اور ایک اونی ٹوپا، کمبل، کینوس کا سفری بیگ اور اسے بھرنے کے لیے چند کپڑے اور خشک خوراک سمیت کچھ دیگر سامان خریدا۔ جی چاہا کہ نائی کی دکان پر جاکر بے ترتیب بڑھی ہوئی شیو سے بھی جان چھڑالوں، جو اب داڑھی کی شکل اختیار کر چلی تھی۔ لیکن پھر میں نے یہ خیال چھوڑ دیا۔ یہ بدلی ہوئی شکل و صورت دلّی میں میری شناخت چھپانے میں مددگار ثابت ہوتی، جہاںکم ازکم ایک پولیس افسر رمیش شکلا مجھے گھنی مونچھوں والے پاکستانی شہری کی حیثیت سے بخوبی پہچانتا تھا۔
خریداری مکمل کرکے میں بس اڈے واپس پہنچا اور ہریانہ ہی میں لگ بھگ ستّر میل کے فاصلے پر واقع شہر بھوانی جانے والی ایک ایسی بس میں سوار ہوگیا، جو اس وقت لگ بھگ خالی تھی۔ بس کے مسافر پورے ہونے تک تقریباً پونے گھنٹے کا وقت مزید گزر گیا۔ بالآخر پوری طرح بھرنے کے بعد بس منزل کی طرف روانہ ہوئی اور ڈھائی تین گھنٹے میں مجھے بھوانی کے بس اڈے پر اتار دیا۔
بھوانی میرے اندازے سے کہیں زیادہ پُررونق اور گنجان آباد شہر ثابت ہوا۔ کچھ ہی دیر میں مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہاں مسلمانوں کی بھاری تعداد آباد ہے اور بازاروں میں واقع دکانوں کی بہت بڑی تعداد بھی ان کی ملکیت تھی۔ لہٰذا یہ شہر میرے جیسے پردیسی مسلمان کے لیے ایک اچھا ٹھکانا ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک بار تو میرے دل میں آئی کہ رات وہیں کسی مسافر خانے میں گزار کر صبح سویرے دلّی کے لیے روانہ ہوجاؤں۔ لیکن پھر رات میں سفر کے فوائد ذہن میں تازہ ہونے پر میں نے یہ ارادہ ترک کردیا۔
اگلے ڈیڑھ دو گھنٹے میں نے بھوانی شہر کے بازاروں اور گلی کوچوں میں مٹر گشت کرتے گزارے۔ مجھے وہاں عالی شان مندروں کی بہتات نظر آئی، جبکہ ایک خاص مشاہدہ یہ ہوا کہ شہرکے مختلف علاقے لاہور کی طرح مختلف گیٹوں کے ناموں سے مشہور تھے اور وہاں باقاعدہ بڑے بڑے گیٹ موجود بھی تھے۔ رات کا پہلا پہر شروع ہونے پر میں بس اڈے کی طرف لوٹ آیا۔ سردی بڑھنے کی وجہ سے گلی کوچوں میں لوگوں کی آمد و رفت خاصی کم ہوچکی تھی، جبکہ دکانیں بھی بند ہونے لگی تھیں۔
لگ بھگ ایک گھنٹا مزید وقت گزارنے کے بعد میں حصار سے آنے والی ایک خستہ حال بس میں سوار ہوگیا، جو لگ بھگ آدھا گھنٹا ٹھہر کر دلّی کی طرف چل پڑی۔ میں نے بس روانہ ہونے سے پہلے خود کو کمبل کے خیمے میں پوشیدہ کر لیا تھا۔ تقریباً پونے گھنٹے بعد بس چند منٹ کے لیے کہیں رکی۔ کانوں میں پڑنے والی آوازوں سے پتا چلا کہ وہ کلانور قصبہ ہے۔ لگ بھگ آدھے گھنٹے سفر کرنے کے بعد بس ایک بار پھر، نسبتاً زیادہ دیر کے لیے ٹھہری۔ اس بس اڈے پر خاصی چہل پہل محسوس ہوئی۔ ایک دو ہاکر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے بس میں چڑھے۔ پتا چلا ہم روہتک میں موجود ہیں۔ بالآخر بس وہاں سے بھی چل پڑی۔
میرا اندازہ تھا کہ بس دلّی پہنچنے میں کم از کم تین ساڑھے تین گھنٹے مزید لگائے گی، جو بس کی منزل مقصود ہے۔ لہٰذا میں نے خود کو نیند کے حوالے کرنے کا سوچا۔ میں ابھی غفلت کے ابتدائی مراحل میں تھا کہ اپنے سے اگلی سیٹ پر بیٹھے دو مسافروں کی خوشی اور جوش بھری باتوں نے مجھے متوجہ کرلیا۔ ہریانوی بولی میں ان کی گفتگو سے پتا چلا کہ بس سے باہر اچھی خاصی بارش ہو رہی ہے۔ وہ دونوں خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ اس بارش سے کیرتن نامی گاؤں میں واقع ان کے کھیتوں میں پروان چڑھتی گندم کی فصلوں کو بہت فائدہ پہنچے گا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment