بھارت کے مرکزی بینک سمیت کئی بھارتی بینکوں نے کھاتے داروں سے 50 ارب اینٹھ لئے۔ ایک برس کے دوران جرمانوں کی آڑ میں 50 لاکھ بھارتیوں کو لوٹا گیا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی یا بینکوں کی وارننگ کو نظر انداز کرنے والے اکائونٹس ہولڈرز کے ہزاروں اکائونٹس بھی بند کر دیئے گئے ہیں اور ان میں موجود علیحدہ رقوم بھی بحق سرکار ضبط کرلی گئی ہیں۔
بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ سینٹرل بینک آف انڈیا سمیت کئی بھارتی بینکوں نے صارفین پر کم بیلنس کی مد میں کئے جانے والے جرمانوں کی مد میں صرف ایک برس کی مدت میں 50 ارب روپے کی بھاری رقوم وصول کر لی ہیں۔ بھارتی بینکنگ تجزیہ نگار امیت کمار جھا نے بتایا ہے کہ بھارت میں بینکوں کی پالیسیوں پر شدید تنقید کی جاتی ہے، کیونکہ بینکنگ سیکٹر کی خدمات مزید مہنگی کی جا رہی ہیں۔ صارفین کا الزام ہے کہ بھارت کے مختلف بینک، صارفین کی کم تعلیم اور قوانین سے لا علمی کے سبب ان کو لوٹ مار کا نشانہ بنا رہے ہیں، جس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ بھارتی بینک صارفین کو اے ٹی ایمز سے رقوم نکالنے کیلئے ہر ٹرانزیکشن پر سب سے زیادہ 70 روپے تک کی ادائیگی کرنا پڑتی ہے، جس کی وجہ سے صارفین کا بینکوں پر اعتماد صفر ہوتا جا رہا ہے۔ بھارتی جریدے ٹیلی گراف انڈیا نے ایک چشم کشا رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارتی بینکوں کی انتظامیہ ایک سائنٹیفک طریقہ کار کے تحت صارفین کا استحصال کر رہی ہے۔ اس حوالے سے علم ہوا ہے کہ جن بینکوں نے بھارتی عوام کے اکائونٹس پر ڈاکا ڈالنے کا کام کیا ہے، ان کی تعداد محض پانچ ہے۔ لیکن ان کا کاروبار بھارت اور دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔ ان بینکوں میں سینٹرل بینک آف انڈیا، ایچ ڈی ایف سی بینک، ایکسز بینک آف انڈی، آئی سی آئی سی بینک اور پنجاب نیشنل بینک شامل ہیں اور ان پانچوں بینکوں نے مالی سال 2017ء کے بارہ ماہ میں پانچ ہزار کروڑ روپیہ (پانچ ارب روپے) صرف جرمانوں کی مد میں کمائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمانوں کی بے رحمانہ وصولی میں سینٹرل بینک آف انڈیا درج بالا پانچوں بینکوں میں سب سے آگے رہا، جس نے ایک سال کی مدت میں 22 ہزار433کروڑ روپے ڈکار لئے، لیکن بھاری جرمانوں کی وصولی کے باوجود اسی مالی سال کے دورانیہ میں 6 ہزار کروڑ روپیوں کا گھاٹا بھی ہوا ہے۔ سب سے زیادہ جرمانے بٹورنے والا دوسرا بینک ایچ ڈی ایف سی ہے، جس کے حکام نے اپنے صارفین سے 590کروڑ روپے اینٹھے ہیں اور اس کو اسی مالی سال میں 619کروڑ کا نفع ہوا ہے۔ جو اعداد و شمار کے مطابق جرمانہ وصولی کے سبب ہوا۔ جبکہ تیسرے نمبر پر ایکسز بینک ہے جس نے ایک سال کی مدت میں صارفین کو 600کروڑ کا جرمانہ کیا اور اب تک530کروڑ بھارتی روپے وصول کئے جا چکے ہیں۔ چوتھے نمبر پر صارفین کو نچوڑنے والا بھارتی بینک آئی سی آئی سی آئی رہا، جس نے 317 کروڑ روپیوں کا ریکارڈ بنایا اور سب سے آخری نمبر پر آنیوالا بینک دی پنجاب نیشنل بینک ہے، جس نے صارفین سے جرمانوں کی مد میں 211کروڑ روپے نکلوالئے۔ اس ضمن میں بھارتی بینکنگ قوانین کے تحت سیونگ اکائونٹس میں رقم کی کم سے کم کوئی مقدار نہیں لاگو ہوتی، لیکن بھارتی بینک صارفین کو گمراہ کرنے میں میں اول نمبر پر ہیں اور 50 لاکھ سے زیادہ صارفین کا دعویٰ ہے کہ ان سے بھی جرمانوں کی وصولی دھوکا دے کر کی گئی ہے، کیونکہ دو سال قبل ان بھارتی بینکوں نے اشتہارات کی مدد سے ان کو اس بات پر راغب کیا کہ وہ بینکوں میں اکائونٹس کھولیں جس میں کوئی کٹوتی نہیں ہوگی اور نا ہی کم از کم بیلنس کی شرط لاگو کی جائے گی، جبکہ چیک بکس اور پے آرڈرز کے ساتھ ساتھ اے ٹی ایمز اور ون لنک کی تمام سہولیات بھی مفت فراہم کی جائیں گی۔ اس قسم کی اشتہاری مہم کے نتیجہ میں پچاس لاکھ سے زیادہ بھارتی کسانوں اور شہریوں نے مختلف بینکوں میں آفر کے تحت اکائونٹس کھولے تھے۔ لیکن چھے ماہ کے بعد ان کو معلوم ہوا کہ یہ شاندارآفر صرف چھے ماہ کیلئے تھی اور اب ان کو نا صرف کم از کم بیلنس کی شرط بھی پوری کرنا ہوگی بلکہ اے ٹی ایمز اور ون لنک سے کیش نکلوانے پر بھی ’’فیس‘‘ ادا کرنا ہو گی اور عدم ادائیگی پر اکائونٹس سے رقوم کاٹ لی جائیں گی اور بینک اکائونٹ بھی بند کردیا جائے گا۔ بھارت جریدے نیو انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ بھارتی بینکوں کو دیوالیہ کرکے قرضے کھا جانے والے بڑے بڑے سرمایہ کار اور صنعتکار چونکہ بھاگ چکے ہیں اور ان سے رقو م کی وصولی بہت مشکل کام دکھائی دیتا ہے اس لئے بھارتی بینکوں نے صارفین سے جرمانوں اور مختلف مدات میں وصولیوں کی نئی حکمت عملی اپنائی ہے جس میں ایک کروڑ سے زیادہ صارفین سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے اکائونٹس میں کم از کم رقم پانچ ہزار روپیہ ضرور رکھیں ورنہ ان کی رقوم میں سے ماہانہ بنیاد پرجرمانہ وصول جائے گا، جبکہ اکائونٹس میں موجود رقوم میں ہر ماہ 100 روپیہ بیک چارجز کی مد میں الگ سے کاٹا جائے گا۔ اس پر نا خواہندہ یا بینکنگ قوانین سے نا بلد بھارتی صارفین نے ان انتباہی نوٹسوں کا کوئی جواب نہیں دیا، جس پر لاکھوں صارفین سے نا صرف جرمانہ کی مد میں کروڑوں وصول لئے گئے بلکہ ہر ماہ صارفین کے اکائونٹس سے ’’منتھلی چارجز‘‘ کے نام پر رقوم کاٹ لی گئیں اور جن اکائونٹس میں رقوم معمولی تھیں ان کو بند کرکے ان تمام رقوم کو ضبط بھی کرلیا گیا۔ ممبئی کی ایک یونیورسٹی میں ریاضی کے استاد پروفیسر اشیش کے داس کا کہنا ہے کہ بینکوں کے جرمانے غیر قانونی ہیں اور ریزرو بینک آف انڈیا کی ہدایات کے منافی بھی ہیں۔ اس سلسلہ میں صارفین کا یہ الزام اہمیت رکھتا ہے کہ بھارتی بینک صارفین کا استحصال کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭